اسلام آباد( نیوزٹویو)الیکشن کمیشن نے ملک میں 11 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ دے دی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 90 روز میں عام انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے عدالت میں بیان دیا کہ 30 نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل ہو جائیں گی اور انتخابات 11 فروری کو کرائے جائیں گے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا انتخابات کی تاریخ سے متعلق صدر پاکستان آن بورڈ ہیں؟ کیا الیکشن تاریخ سے متعلق صدر سے مشورہ کیا گیا؟
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن آج صدر سے مشاورت کرے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر آج ہی الیکشن کمیشن صدرسے مشاورت کرلیتا ہے تو سماعت کریں گے، کیا کسی کو اعتراض ہے کہ الیکشن کمیشن صدرمملکت سے مشاورت کرلے؟
چیف جسٹس کے استفسار پر پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ صرف پتھر پر درج انتخابات کی تاریخ چاہیے جب کہ پی پی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ مشاورت پر کوئی اعتراض نہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں آج ہم نے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو اکٹھا کردیا، کل کو سرخی نہ لگی ہوکہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کا اتحاد ہوگیا ہے۔
اس سے قبل دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے تو الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے خود آئین کی خلاف ورزی کی۔
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنی استدعا 90 دن میں انتخابات کرانے تک محدود کرلی ہے، آئین کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے سے90 دن میں انتخابات ہونا لازم ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 90 دن میں انتخابات کی استدعا تو پھر غیر موثر ہو گئی، پچھلی سماعت پر کہہ دیا تھا کہ 90 دن میں اب انتخابات ممکن نہیں ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا پی ٹی آئی صرف انتخابات چاہتی ہے، انتخابات کیس سے بنیادی حقوق جڑے ہیں، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہو گی نہ قانون بنیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو الگ چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کیلئے خط لکھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا صدر نے خط میں لکھا کہ عدالت انتخابات کے معاملے کو دیکھے، کیا صدر یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ انتخابات کے معاملے کا نوٹس لے؟
وکیل پی ٹی آئی نے کہا صدر نے خط میں لکھا کہ عدالت بھی جائزہ لے سکتی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صدر نے خط میں انتخابات کی کوئی تاریخ نہیں دی، کیا صدر مملکت نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا صدر نے انتخابات سے متعلق مشاورت کرکے اپنی ذمہ داری پوری کی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اسمبلیاں 9 اگست کو تحلیل ہوئیں تو صدر نے الیکشن کمیشن کو خط 2 ستمبر کو کیوں لکھا، کیا الیکشن کمیشن نے صدر کو الیکشن کی تاریخ دینے کا کہا؟
وکیل علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن نے تو صدر کو کہا کہ تاریخ دینا آپ کا اختیار نہیں ہمارا ہے، چیف جسٹس نے کہا کیا وہ خط دیکھ سکتے ہیں جس میں صدرنے تاریخ دی؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے؟