چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل، اٹارنی جنرل کے دلائل

اسلام آباد(نیوزٹویو)اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس گل حسن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی ڈویژن بینچ کا حصہ ہیں۔
عدالت نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل پر آج تک حکمِ امتناع جاری کر رکھا تھا۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور لیگل ٹیم کے ارکان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سلمان اکرم راجہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سماعت پر آرڈر کے بعد کیا ہوا، میں فوری اڈیالہ جیل پہنچا جہاں جیل ٹرائل جاری تھا، مجھے کافی دیر انتظار کے بعد اندر جانے کی اجازت ملی، ایک گواہ کا بیان بھی ہو چکا تھا، ٹرائل کورٹ نے حکمِ امتناع کے بعد بھی ساڑھے 3 بجے تک سماعت جاری رکھی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت میں کہا کہ جب عدالت کو اسٹے آرڈر کا بتایا گیا تو ٹرائل روک دیا گیا تھا۔
عدالت میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بھی دلائل دیے۔
جسٹس گل حسن نے کہا کہ آپ نے جس طرح سنگل بینچ کو مطمئن کیا اسی طرح ہمیں بھی مطمئن کریں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں اس کیس میں پیش نہیں ہوا تھا، میرا مؤقف یہ ہے کہ یہ انٹرا کورٹ اپیل قابلِ سماعت ہی نہیں۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اوپن ٹرائل کا مطلب اوپن ٹرائل ہے وہ ہر ایک کے لیے اوپن ہو، سنگل بینچ نے لکھا ہے کہ پہلے ہو چکا ٹرائل کالعدم نہیں ہو گا، ہمیں جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن اور ان کا سارا پراسس بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو جان کے خطرے کے پیشِ نظر جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن ہوا، چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں تھے تو اس وقت پہلے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن ہوا، 2 اکتوبر کو سائفر کیس کا چالان جمع ہوا اور 23 اکتوبر کو ملزمان پر فردِ جرم عائد کی گئی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج نے وزارتِ قانون کو جیل سماعت کے لیے خط لکھا، چالان جمع ہونے کے بعد خصوصی عدالت کے جج نے ایک اور خط لکھا، چیئرمین پی ٹی آئی کے سیکیورٹی خدشات کے باعث جیل سماعت کا نوٹیفکیشن ہوا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ شاہ محمود قریشی نے جیل ٹرائل کے بجائے ریگولر کورٹ میں سماعت کی استدعا کی تھی، یہ درخواست مسترد کی گئی اور ہائی کورٹ نے بھی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹائی، ایک ملزم کا جیل ٹرائل ہو تو اسی کیس کے دوسرے ملزم کا الگ ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے پیپر بک جمع کرائی ہے جس میں کابینہ کی منظوری سمیت دیگر متعلقہ دستاویزات ہیں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے جج نے طے کیا کہ جیل کی حدود میں ٹرائل ہو، جج نے ہی این او سی کے لیے وزارتِ قانون کو خط لکھا، جج کی ریکویسٹ پر ہی وزارتِ قانون نے این او سی جاری کیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ جج صاحب کہہ کیا رہے ہیں؟ ان خطوط کی لینگویج کچھ عجیب سی ہے، جب چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ آیا تب وہ اٹک جیل میں تھے، اٹک جیل سے عدالت میں پیش کرنے کے لیے سیکیورٹی مسائل ہو سکتے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کو اب اڈیالہ جیل منتقل کیا جا چکا ہے، سیچوئیشن بدل چکی ہے، وزارتِ قانون کے جاری کردہ این او سی کو کس پراسس کے تحت جاری کیا گیا؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کے لیے کابینہ کی منظوری کی دستاویز بھی پیش کیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پراسیکیوشن کی جانب سے ان کیمرا کی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ اس پر کیا آرڈر ہوا؟وہ بہت اہم ہے، عدالت نے تو کہا ہے حساس دستاویزات آئیں تو صرف اس حد تک ان کیمرا کارروائی ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیل ٹرائل اور ٹرائل کے دوران پبلک کی عدم موجودگی دو مختلف باتیں ہیں، جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے، کلوز ٹرائل نہیں ہے، 12 ستمبر 2023ء کو جج نے پہلی مرتبہ جیل میں ٹرائل کی ریکویسٹ کی تھی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ وہ ریکویسٹ صرف ایک مرتبہ کے لیے تھی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ ٹرائل جج کی جانب سے چیف کمشنر نے وزارتِ داخلہ کو خط لکھا اور وزارتِ داخلہ نے سمری بنا کر وزارتِ قانون کو بھیجی اور پھر وزارتِ قانون نے وہ سمری وفاقی کابینہ کو جائزہ لینے کے لیے بھیجی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں