وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں کسی وزیر یا مشیرکےملوث ہو نے کے ابھی تک کو ئی ثبوت نہیں ملے حکومتی شخصیت ملوث ہو ئی تو قانون کے مطا بق سلوک ہو گااس منصوبےمیں حکومت نے اربوں کھائے نہیں بلکہ بچائے ہیں۔منگل کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ حکومت نے 23 ارب روپے کی رقم بچائی ہےفواد چودھری نے کہا کہ وزیراعظم کو ایک نامعلوم میسج موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ رنگ روڈ کی الائنمنٹ کو تبدیل کیا گیا ہے اور سنگجانی کے مقام پر سڑک کو تنگ کر دیا گیا ہے جس پروزیراعظم نے ابتدائی تحقیقات کا حکم دیا جس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ نہ صرف الائنمنٹ بدلی گئی ہے بلکہ اسے اٹک کی طرف29 کلومیٹر بڑھا دیا گیا ہے تاکہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کو شامل کیا جائے اب نیب اور اینٹی کرپشن سمیت تمام متعلقہ ادارے اس حوالے سے مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔اس سے قبل اپنےٹوئٹر پر فواد چوہدری نے کہا کہ حکومتی اہلکاروں کو بھی احتساب کا خوف ہونا چاہیے، طاقتور ترین لوگ بھی قانون سے مبرا نہیں ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی احتساب کی پالیسی واضح ہے، الزامات لگیں گے تو تحقیقات ہوں گی اور جوابدہی کا اصول لاگو ہو گاوفاقی وزیر نے کہا کہ ’تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اب چاہے وہ اپوزیشن کے رہنما ہوں یا کابینہ کے رکن، افسر شاہی سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی ادارے سے، الزامات لگیں گے تو تحقیقات ہوں گی اور جوابدہی کا اصول لاگو ہو گا، یہی نظام کی تبدیلی ہے جس کا وعدہ تھا۔‘

فواد چوہدری نے کہا کہ رنگ روڈ معاملے میں وزیر اعظم کو بتایا گیا تھا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کو فائدہ پہنچانے کے لیے رنگ روڈ کو 23 کلومیٹر تک بڑھایا گیا جس کے باعث حکومت کو 20 ارب روپے اضافی زمین کی خریداری کی مد میں دینے پڑے اس معاملے کی وزیر اعلیٰ پنجاب کو تحقیقات کرنے کا کہا گیا تھا جبکہ کمشنر راولپنڈی کو بھی معاملہ دیکھنے کا کہا گیا تھا کمشنر نے ابتدائی تحقیقات میں ان اطلاعات کی تصدیق کی تھی، ان کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سابق کمشنر راولپنڈی اور ان کے ساتھ مزید افسران اس سکینڈل میں شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ مزید تحقیقات کے لیے معاملہ متعلقہ اداروں کو بھیجا جائے، ابھی تک اس معاملے میں کسی وزیر یا مشیر کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ ایسا عمران خان کی حکومت میں ہی ہو سکتا تھا کہ الزامات لگیں تو تحقیقات شروع ہو جائیں، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کےدور میں میڈیا کےگلے بیٹھ جاتے تھے