افغان دارالحکومت کابل میں ایک سکول کے باہر دھماکوں میں جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر68 ہوگئی جس میں زیا دہ تعدا د سکول طا لبات کی ہے جبکہ 165 سے زائد افراد زخمی ہیں ان میں سے کئی کی حالت تشو یشناک ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے ۔ دوسری طرف اتوار کے روز جاں بحق افراد کی تدفین کا سلسلہ جاری رہا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے واقعہ کی سخت مذمت کرتے ہوئے داعش کو واقعہ کا ذمہ دارٹھہرایا ہے ۔ افغانستان کے صدر اشرفی غنی نے منگل کو ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کردیا ہے اتوار کوھماکہ اس وقت ہوا جب طلبہ سکول کی عمارت سے باہر نکل رہے تھے۔ وزارت تعلیم کے مطابق زخمیوں میں ایک بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے یا د رہے کہ امریکہ نے 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنے تمام فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا تھا اور کابل میں اس وقت سے سکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے۔ افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے ملک بھر میں پُرتشدد حملوں میں اضافہ کر دیا ہے مرنے والوں کی تدفین ’شہداء قبرستان‘ میں ہوئی جہاں ہزارہ متاثرین کو سپرد خاک کردیا گیا تد فین کے موقع پرلکڑی کے تابوت میں بچیوں کی لاشوں کو قبروں میں اتارے جانے پر سوگوار افراد غم سے نڈھال تھے۔ایک عینی شاہد کے مطابق جب میں جائے وقوعہ پر پہنچاتو خود کو لاشوں کے بیچ میں پایا۔یہ سب لڑکیاں تھیں۔ ان کی لاشیں ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر ہوگئیں زہرہ نامی ایک زندہ بچی نے صحافیوں کو بتایا کہ دھماکے ہوتے ہی وہ سکول سے نکل رہے تھی۔میری ہم جماعت کی موت ہوگئی۔ چند منٹ بعد ہی ایک اور دھماکہ ہوا ، اور پھر ایک اور سب چیخ رہے تھے اور ہر طرف خون تھا حملے کی تاحال کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ طالبان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے حملے کی مذمت کی ہے د ھماکے کے بعد کی متعدد تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہلاک اور زحمی ہونے والے بچوں کے بستے سڑک پر پڑے ہیں یہ حملہ کابل کے مغربی حصے میں پیش آیا ہے جہاں کثیر تعداد میں شیعہ مسلمان آباد ہیں۔ گذشتہ برسوں میں نام نہاد دولت اسلامیہ نے یہاں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے کا بل کی وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ اس سکول میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں پڑھتے ہیں۔ تدریسی عمل تین شفٹوں میں جاری رکھا جاتا ہے جبکہ دوسری شفٹ میں طالبات پڑھتی ہیں۔حملے میں زخمی ہونے والوں میں اکثر طالبات شامل ہیں۔افغانستان میں یورپی یونین کے مشن نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ‘یہ خوفناک حملہ دہشتگردی ہے۔ اس سے بنیادی طور پر سکول میں پڑھنے والی لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس طرح یہ حملہ افغانستان کے مستقبل پر کیا گیا ہے۔
