سری نگر(نیوزڈیسک) بھارت کی ا نتہا پسند سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پراضا فی فوجی تعینات کر دئیے ہیں فوجیوں کی تعیناتیوں سے لگ رہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کو ئی بڑا کھیل کھیلنے جا رہا ہے اضا فی فوجیوں کی آمد سے مقبو ضہ کشمیر میں خوف وہراس کی فضا ہے جرمنی کے نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق بھارتی حکومت نے گزشتہ چند دنوں میں ہزاروں تازہ دم فوجی و نیم فوجی دستوں کو مقبوضہ وادی کشمیر میں بھیجا ہے جن میں سے بیشتر کو شمالی کشمیر میں متعین کیا گیا ہے نشریاتی ادارے کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں فوجی و نیم فوجی دستوں کی نقل و حرکت پہ مقامی افراد اور رہنما ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ہیں کہ کیا مقبوضہ وادی میں ایک مرتبہ پھر کچھ بڑا ہونے والا ہے؟مقبوضہ وادی چنار میں فوجی نقل و حرکت پر حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ وہ فوجی ہیں جو یہیں تعینات تھے لیکن اسمبلی انتخابات کرانے گئے تھے اور اب واپس آرہے ہیں۔ جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ واپسی کے بعد فوجیوں کو دوبارہ ان کی دیوٹی میں شامل کیا جا رہا ہے اور یہ کوئی نئی تعیناتی نہیں ہے حکومتی مؤقف سے مقامی رہنما اتفاق نہیں کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں پھر کچھ بڑا ہونے والا ہے اور لگتا ہے کہ شاید ایک مرتبہ پھر کشمیری رہنماؤں کو حراست میں لیا جائے گا۔

نیشنل کانفرنس کے ترجمان اور ریاستی وزیر اعلی کے سابق مشیر تنویر صادق اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ بہت تیزی سے طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں انہوں ںے استفسار کیا ہے کہ کیا ہمیں دوبارہ ایم ایل ہاسٹل جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے؟ مقبوضہ کشمیر میں سرینگر کا ایم ایل ہاسٹل سیاسی قیدیوں کی نظر بندی کے لیے مشہور ہے۔ بھارت میں برسراقتدار مودی حکومت نے 2019 میں کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کا خاتمہ کیا تھا تو اس اقدام سے پہلے بھی اضافی فوج تعینات کی گئي تھی اس وقت بھی مقامی لوگوں میں مختلف طرح کے اندیشے و خدشات موجود تھے۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق اس وقت بھی مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں گزشتہ دو روز سے ویسی ہی کیفیت ہے اور لوگوں میں فوجی نقل و حرکت سے زبردست بے چینی پائی جاتی ہےجرمن نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے مقامی صحافی ظہور حسین نے اس حوالےسے کہا ہے کہ لوگوں میں اضطرابی کیفیت موجود ہے اور وادی کشمیر میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہےنشریاتی ادارے کے مطابق کشمیر میں ایک افواہ یہ ہے کہ مودی حکومت ایک بار پھر سے کشمیر کو تقسیم کرنے جا رہی ہے اور اس کے تحت جموں خطے کو پھر سے ریاست کا درجہ دے دیا جائے گا جب کہ وادی کشمیر مرکز کے زیر انتظام برقرار رہے گاعلاقے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دوسری افواہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کو جموں میں ضم کر کے ایک نئی ریاست جموں قائم کی جائے گی اور شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے کی اور کشمیر کو ہی ختم کر دیا جائے گاعالمی نشریاتی ادارے کے مطابق ایک افواہ یہ بھی ہے کہ مودی حکومت کشمیری پنڈتوں کے لیے ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کا اعلان کرنے والی ہے تاکہ وہاں کشمیری پنڈتوں کو پھر سے بسایا جا سکے۔کشمیری پنڈتوں کی تنظیم پنون کشمیر کا مطالبہ رہا ہے کہ وہ کشمیر واپس آنا چاہتے ہیں لیکن انہیں الگ سے بسایا جائے اور کشمیر کو دو علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا جائےکشمیر کے ماہر قانون ریاض خاور کے مطابق سوشل میڈیا پر افواہیں بہت تیزی سے گردش کر رہی ہیں کہ ریاست کو پھر سے تقسیم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایک افواہ یہ بھی ہے کہ کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس کرنے کی تیاری ہو رہی ہے تاہم پھر وہ خود ہی یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہی ہے تو فوج کیوں تعینات کی جائے گی۔ انتہا پسند جنونیوں ہندوؤں کی حکومت نے 5 اگست سن 2019 کو کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات ختم کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔بھارتی حکومت کی جانب سے کی جانے والی تقسیم کے تحت ایک جموں کشمیر اور دوسرا لدّاخ کا علاقہ ہےبھارت نے ایسا کرنے کے لیے کشمیر کے سینکڑوں رہنماؤں و کارکنان کو گرفتار کیا تھا جس میں سے متعدد اب بھی ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں مقبوضہ وادی کشمیر میں اس وقت بھی سیکیورٹی کا انتہائی سخت و کڑا پہرہ ہے اور ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے۔