اسلام آباد ( نیوزٹویو)قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے حکومت کے تجویز کردی فنانس بل کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد اجلاس کی کا رروا ئی بدھ کی صبح 11:30بجے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی قبل ازیں قومی اسمبلی میں فنانس بل پیش کرنے کی تحریک اپوزیشن کے 138ووٹوں کے مقابلے میں حکو مت کے 172ووٹوں سے منظورکر لی گئی تھی جس کے بعد فنانس بل کی شق وار منظوری دی گئی قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں شروع ہوا تاہم فنانس بل کی منظوری کے دوران اسپیکر اسد قیصر ایوان میں پہنچے اور اپنی نشست سنبھال لی فنانس بل کی منظوری کے دوران وزیر اعظم عمران خان بھی ایوان میں پہنچ گئے جن کا حکومتی اراکین اسمبلی نے کھڑے ہو کر استقبال کیاوزیر خزانہ شوکت ترین نے فنانس ترمیمی بل 2021 ایوان میں پیش کیا جس کی اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کی گئی ہےایوان نے فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کی زبانی منظوری لی جسے نواب تالپور نے چیلنج کردیا جس کے بعد اسپیکر نے گنتی کرنے کی ہدایت کردی ایوان میں گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی نے فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کو شق وار کثرت رائے سے منظور کرلیافنانس بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 172 ووٹ آئے جب کہ 138 ووٹ تحریک کے خلاف آئے۔فنانس بل کی تحریک پیش کیے جانے کے بعد وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ موجودہ بجٹ مکمل طور پر غریب کے لیے ہے جس میں غریب کے لیے روڈ میپ دیا گیا ہے جو کچھ کہا ہے اس پر عمل کرکے دکھا ئیں گےانہوں نے فنانس بل پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ ترامیم پر چند ایک کے علاوہ کسی نے تقریر نہیں کی۔ ایک بجٹ پیش کیا اور پھر بحث کو سمیٹا لیکن یہاں پھر تقریریں شروع ہو گئیں انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں 74 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب کے لیے روڈ میپ دیا گیا ہے۔ لوگوں کو گھر ملیں گے، صحت کارڈ ملے گا تو یہ حزب اختلاف والے تو فارغ ہو جائیں گے کیونکہ موجودہ بجٹ مکمل طور پر غریب کے لیے ہے انہوں نے کہا کہ فنانس بل میں کچھ ترامیم کیں ہیں ہم کام کرنے والے ہیں صرف باتیں نہیں کرتے۔ حزب اختلاف نے ترامیم پر کم بات کی تقاریر کی گئیں لیکن ہم نے جو اعداد و شماردیے ہیں ان پر عمل کر کے دکھا دیں گے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی صرف 7 فیصد ہے اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ زراعت پر خرچ نہیں کریں گے تو کھانے پینے کی اشیا درآمد کرنا پڑیں گی۔ ہم زراعت پر 150 ارب روپے لگا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ نہیں کیا۔ورونا کی وجہ سے دنیا کی معیشت میں منفی گروتھ ہوئی، ہم غربت میں کمی کر کے دکھائیں گے، خوشحالی آئے گی آپ 20 ارب ڈالر کا بجٹ خسارہ چھوڑ گئے ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، آپ سیاست نہ کریں، میرٹ پر بات کریں، آنیوالے دنوں میں نچلی سطح پر خوشحالی ہوگی، اشیائے خورونوش اور انٹرنیٹ پر ٹیکس ختم کر دیا گیا،کوئی ان ڈائریکٹ ٹیکس نہیں لگایا گیا، ڈیڑھ کروڑ افراد ٹیکس نہیں دے رہے لیکن ہمارا مقصد لوگوں کو گرفتار کرنا نہیں۔
پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ توقع تھی کہ بجٹ میں عوام کے مسائل کا حل ہو گا، اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، ان ڈائریکٹ کی بجائے ڈائریکٹ ٹیکس ہونے چاہیے، اس ملک کا کاروباری طبقہ پہلے ہی نیب سے تنگ تھا، اب ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دیئے جا رہے ہیں، اب کاروباری لوگ کہیں گے خدا کا واسطہ ایف بی آر سے بچاؤ، نیب کے حوالے کر دومسلم لیگ ن کی رکن عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ وزیر خزانہ کی باتوں، دعوؤں اور فنانس بل میں تضاد ہے، برآمدات کیسے بڑھیں گی، حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا، سرمایہ کاروں کی سہولت کیلئے ٹیکس کا نظام سادہ بنایا جاتا ہے، سمندر پار پاکستانی پاکستان آ کر مختلف ریٹرنز بھریں گے، ایف بی آر کو ہراسمنٹ کے اختیارات دیں گے تو رشوت بڑھے گی جے یوآئی کی رکن شاہد اخترنے کہا کہ ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے لیے عوام کی چمڑی ادھیڑی جا رہی ہے، سرکاری ملازمین کے الاؤنسز پر ٹیکس عائد کرنا ظلم ہے، عوام سے 2021 تک بجلی بلوں میں نیلم جہلم سرچارج وصول کیا گیا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ اب تک 3 وزیر خزانہ تبدیل ہوئے، حکومت نے دعویٰ کیا کہ ٹیکس فری بجٹ ہوگا، حکومت نے 1200 ارب روپے کے ٹیکس لگائے، ملک میں تعلیمی اداروں کو فروغ نہیں دیا گیا، ہیلتھ کارڈ بانٹنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، ہیلتھ کارڈ بانٹنے کا بڑا اسکینڈل آئے گا، 32 سال سے پارلیمنٹ کو دیکھا ہے، کبھی گالی نہیں سنی، اب مارشل لا کا دور نہیں، دنیا تیزی کے ساتھ آگے جا رہی ہےانہوں نے کہا کہ ملک میں غربت انتہا کو پہنچ گئی، غریب کو کچل دیا گیا ہے، زراعت کو آپ نے کیا دیا، کیوں زراعت میں اضافہ نہیں ہوتا ؟ پاکستان زرعی ملک ہے، اس کا کیا حشر کر دیا، ہماری زمین کم ہوتی جا رہی جبکہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، سندھ میں 20 لاکھ والا دل کا آپریشن مفت کیا جاتا ہے، جگرکی بیماری کا بھی علاج مفت ہے، سندھ میں مریضوں سے یہ نہیں پوچھا جاتا تم کہاں سے آئے ہو۔