مسئلہ کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی نہیں بات نہیں،سردار مسعود خان صدرآزادکشمیر

اسلام آباد (نمائندہ نیوز ٹویو) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کسی تیسرے فریق کی ثالثی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں کئی عالمی رہنماؤں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور خطے میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کیں۔ ان رہنماؤں میں امریکہ کے سابق صدر آئزن ہاور بھی شامل تھے جنہوں نے دونوں ملکوں کو کشیدگی ختم کرنے اور مسئلہ کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے اپنا خصوصی ایلچی تعینات کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اسی طرح امریکہ کے ایک اور صدر جان ایف کنیڈی نے اپنے دور صدارت میں بھارت اور پاکستان کو سفارت کاری کے ذریعے مذاکرات کی میز پر بٹھایا تھا اور یہ ان کی کوششوں کا نتیجہ تھا بھٹو اور سوارن سنگھ کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے تھے۔ اسی طرح برطانیہ کے وزیراعظم ہیر ولڈ ولسن کی سہولت کاری سے بھارت اور پاکستان کے درمیان رن آف کچھ کا معائدہ ہوا اور 1965 کی جنگ کے بعد روس کے وزیراعظم الیکسی کوسیجن کی میزبانی میں پہلے تاشقند میں مذاکرات اور بعد میں معائدہ تاشقند ہوا۔ ان خیالات کا اظہار ہونے نے پاکستان کے ایک معروف انگریزی جریدے میں اپنے ایک طویل مضمون میں کیا جس میں انہوں نے ”امن کی تلاش“ کے عنوان سے برصغیر کی تاریخ اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے پس منظر کو بڑی وضاحت سے بیان کیا۔ جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی عالمی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے لکھا ہے کہ امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے بھی 1999 کی کارگل جنگ کے دوران مداخلت کر کے دونوں ملکوں کو ممکن ایٹمی جنگ سے بچا لیا تھا اور اسی طرح 2019 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی پیش کش کر کے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پیش رفت کی کوشش کی لیکن یہ نہ ہی سنجیدہ پیشکش تھی اور نہ ہی اسے بھارتی وزیراعظم نے سنجیدگی سے لیا۔ انہوں نے تحریر کیا کہ معاہدہ تاشقند، شملہ معاہدہ سے لے کر عالمی بینک کی ثالثی سے ہونے والے سندھ تاس معاہدے تک تمام معاملات میں عالمی برادری، عالمی شخصیات اور عالمی ادارے کسی نہ کسی شکل میں شامل رہے اس لیے یہ کہنا کہ بھارت اور پاکستان دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے مل بیٹھ کر کشمیر سمیت دیگر بڑے بڑے مسائل حل کر لیں گے درست نہیں۔ پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام نے ہمیشہ کثیر الاقوامی سفارت کاری کی حمایت کی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جب 1948 سے 1957 تک مسئلہ کشمیر پر طویل غور و حوض کے بعد متعدد قرار دادیں منظور کیں اور بھارت اور پاکستان کے لیے اپنا کمیشن تشکیل دیا تو پاکستان نے اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اقوام متحدہ کے چار ثالث جن میں جنرل میک نافٹن ، جوزف کاربل، سر اون ڈکسن اور فرینک گراہم شامل ہیں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی خلیج کم کرنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے رائے شماری کرائی جا سکے پاکستان نے ان تمام ثالثوں کے ساتھ تعاون کیا لیکن بھارت نے کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضہ کو مستحکم کرنے کے لیے وقت حاصل کیا۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے کشمیری 2019 کے بعد منظم نسل کشی سمیت بھارت کے مظالم کو نہایت صبر و استقامت کے ساتھ سہہ رہے ہیں۔ اپنی تاریخ کے اس تاریک ترین لمحہ میں اگر وہ کسی ملک کی طرف مدد کے لیے دیکھ رہے ہیں تو وہ صرف پاکستان ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ اس وقت بھارت کے ساتھ مذاکرات ہوئے تو وہ اس کی غلط توجیح و تشریح پیش کر ے گا اور وہ کشمیریوں کو تاثر دے گا کہ پاکستان نے انہیں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا اور یوں پاکستان اور کشمیریوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ یہی بھارت کے مفاد میں ہے۔ ان کا موقف ہے کہ بھارت کے ساتھ ایک ایسے وقت میں مذاکرات کرنا جب کہ وہ پوری دیدہ دلیری کے ساتھ کشمیر کے بارے میں اپنے مذموم ایجنڈہ کو آگے بڑھا رہا ہے، انڈوں کے چھلکوں پر چلنے کے مترادف ہے، ہمارا یہ واضح اور دو ٹوک موقف ہونا چاہیے کہ کشمیر کی قیمت پر بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا قبول نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں