اسلام آبا د(نیوزٹویو) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اگربھارت افغانستان میں مفاہمتی عمل کو سبوتاژکررہا ہے بگرام ائر بیس سے سینکڑوں را کے ایجنٹ نکلے افغانستان میں طالبان غالب آنےسے قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کو تقویت مل سکتی ہے افغان طالبان اشرف غنی سے بات نہیں کرنا چا ہتے امریکہ کو افغانستان سے اب کو ئی خطرہ نہیں افغان دھڑے بندیوں کا حصہ نہیں بنیں گے سیاسی مصالحت ہو بھی گئی تو معاشی مسائل سے خانہ جنگی ہو سکتی ہے افغانستان سےکسی کو بغیر ویزا پا کستان آنے کی اجازت نہیں دیں گے

جمعہ کوسینیٹ کی چیئرپرسن شیری رحمان کی زیرصدارت قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں طویل بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکہ کو یقین ہے کہ فوری طور پر فال آف کابل نہیں ہو گاانھوں نے کہا کہ افغان طالبان اب بہت تیز ہو چکے ہیں۔ ان کے ظاہری حلیے کو نہ دیکھا جائے۔ ان سے بات کریں تو وہ انگریزی اور اردو سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ماضی میں مار کھائی اور سیکھا ہے۔ اجلاس میں شاہ محمود قریشی اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور اس کے افغانستان اور پاکستان پر اثرات کے بارے میں بریفنگ دی۔وزیر خارجہ نے افغانستان سے انخلا کے بارے میں کمیٹی کو امریکہ کے اس مؤقف سے بھی آگاہ کیا جو امریکہ نے پاکستانی قیادت کے سامنے رکھا ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ ہمارا افغانستان آنے کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ ہمارے اوپر حملہ ہوا تھا۔ ہم نے اس کا بدلہ لینا تھا۔ اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگا دیا۔ افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ اب ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے یہاں مزید رہنا امریکی مفاد میں نہیں ہےانھوں نے کہا کہ امریکہ کہتا ہے کہ ہم افغانستان میں جمہوریت قائم کرنے اور قومی تعمیر کے لیے نہیں آئے تھے۔ ہم نے طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے میں انخلا کا طے کیا تھا اور طالبان نے انخلا کے وقت ہمارے اوپر حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے انھوں نبھایا ہےاس پر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ سابق دہشت گرد افغانستان میں امریکہ کا دفاع کر رہے ہیں؟‘ وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ ’یہ آپ کہہ سکتے ہیں میں وہاں تک نہیں جا سکتا۔شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہمارا مؤقف تھا کہ انخلا کے ساتھ ساتھ سیاسی مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہے اور افغانستان 90 کی دہائی کی طرح خانہ جنگی میں نہ جائے۔ لیکن امریکہ نے اتنی تیزی سے انخلا کیا ہے کہ بگرام ایئر بیس کا کنٹرول سنبھالنے والے افغان حکام کے مطابق انھیں بھی پتہ نہین چلا کہ بیس کب خالی ہوا کیونکہ مقامی افراد کی موجودگی سے معلوم ہوا کہ امریکہ جا چکا ہے۔انھوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں استحکام کے حوالے سے کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں جن میں سے ایک افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی کو یقینی بنانا ہے، امریکہ افغانستان کی ایئر فورس کو مستحکم کرے گا، اس کے علاوہ بھی معاونت جاری رکھے گاشاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’امریکی انخلا کی وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ دہشت گردی کے جس خطرے کو ختم کرنے کے لیے وہ افغانستان آئے تھے اسے ختم کر دیا گیا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ مستقبل میں مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے دہشت گردی کا خطرہ ہے جس کے لیے امریکہ نے تیاری کر رکھی ہے اور وہ فوری ردعمل دینے کے لیے تیار ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ مستقبل میں چین کی سٹریٹجک اہمیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کر رہا ہے

وزیر خارجہ نے افغانستان میں مفاہمت اور اس صورت حال میں پاکستان کی سفارتی کوششوں اور رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حال میں ہونے والی انطالیہ ڈپلومیسی کانفرنس میں افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ ’ہمارے (افغانوں) اپنے اندر بہت سے مسائل ہیں۔ یعنی دھڑے بندیاں ہیں ہم ان دھڑے بندیوں کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ ہم اچھے ہمسائے کا کردار ادا کرتے ہوئے اچھا مشورہ دے سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر اشرف غنی طالبان کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں لیکن طالبان کو ان پر اعتراضات ہیں۔یہ یاد رکھیے گا کہ طالبان ابہت تیز ہو چکے ہیں۔ وہ پہلے جیسے نہیں رہے۔ آپ ان کے کپڑوں اور پشاوری چپل پر نہ جائیں۔ وہ بہت ذہین لوگ ہیں۔ پاکستان آنے والے وفود سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہ آپ کی بات کو سمجھتے اور اس پر اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ آپ اردو میں بات کریں یا انگریزی طالبان کو سمجھ آتی ہے۔ انھوں نے ماضی میں مار کھائی ہے اور اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ بہت زیرک ہیں اور انھیں ہر چیز کا ادراک ہے۔‘ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایسا لائحہ عمل اپنانا چاہتے ہیں جس سے افغانستان میں امن آئے، اس کے لیے کوشش ہے کہ سیاسی مفاہمت ہو جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر خانہ جنگی ہوتی ہے تو پناہ گزینوں کا سیلاب آئے گا اور اس کے لیے ہم ہر کسی کو بنا ویزے کے آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مہاجرین کو کیمپوں تک محفوظ رکھنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
اس موقع پر معید یوسف نے کہا کہ افغانستان کی صورت حال خراب ہے اور ہم اسے کنٹرول نہیں کر رہے۔ پاکستان میں سول ملٹری روابط کے مسائل ختم ہو چکے ہیں اس لیے فیصلے کر نےمیں آسانی ہے اور پاکستان اس دفعہ مختلف طریقے سے سوچ رہا ہے۔ ہم سٹریٹجک ڈیپتھ نہیں چاہ رہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سیاسی مفاہمت ہو بھی گئی تو معاشی عدم استحکام سے حالات پھر خراب ہوسکتے ہیں۔معید یوسفنے کہا کہ افغانستان کے معاشی مستقبل کے خدشات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کر رہا۔۔ اگر سیاسی مصالحت ہو بھی جاتی ہے تو معاشی مسائل سے خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے پاکستان واحد ملک ہے جس نے افغانستان کو اپنی راہداری استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ ہم ایسی انڈسٹری لگا رہے ہیں جہاں افغانستان کا خام مال استعمال ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم معاہدہ چاہ رہے ہیں لیکن موجودہ افغان حکومت تیار نہیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انڈیا افغان مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کر رہا ہے، وہ بظاہر افغانستان کی تعمیر نو کے نام پر پیسہ لگاتا ہے لیکن اندر خانے پاکستان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔بگرام ایئر بیس سے سینکڑوں انڈین نکلے ہیں جو وہاں کیا کر رہے تھے؟ وہ پاکستان کے بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب میں دہشتگردوں کی معاونت کرنے والے راء کے لوگ تھے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے اس صورت حال سے امریکہ، یورپ اور باقی دنیا کو آگاہ کر رکھا ہے۔ ہم نے ٹرائیکا پلس، استنبول پراسیس، ماسکو فارمیٹ، سہہ فریقی فورموں اور دو طرفہ ملاقاتوں میں افغانستان میں مفاہمت اور اس میں درپیش ایک ایک مشکل پر اپنا ردعمل دیا ہے۔ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ انڈیا افغانستان میں بدامنی چاہتا ہے اس میں اس کا مفاد ہے کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد پر الجھا رہےشاہ محمود قریشی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی بلانے کا مقصد تھا کہ ملکی سیاسی قیادت کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ افغانستان کی صورت حال پر اعتماد میں لے۔ بدقسمتی سے بند کمرہ اجلاس میں ایسے تقریریں ہوئیں جیسے میڈیا بیٹھا ہو اور سب ایسے بول رہے ہوں کہ جیسے کل ان کے نام سے سرخیاں چھپوانی ہوں۔ہےشاہ محمود قریشی کی بریفنگ ختم ہوئی تو کمیٹی کی چیئرپرسن شیری رحمان نے ان کی بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’شاہ محمود آپ نے امریکہ کی اچھی ترجمانی کی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ ’میں امریکہ کا ترجمان نہیں ہوں، میں پاکستان کا ترجمان ہوں۔ میں نے امریکہ کا نقطہ نظر کمیٹی کے سامنے رکھا ہے ‘