حافظ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد عبداللہ درخواستی فرمایا کرتے تھے کہ ”خاتم الانبیاء کی تفسیر کا پتہ میدان حشر میں چلے گا… جب پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفیۖ کے۔۔۔۔ سوا کسی پیغمبرسے بھی شفاعت کا حاصل ہونا ناممکن ہوگا، ختم نبوتۖ کی حفاظت اسلام کی حفاظت ہے ۔۔۔ اور اسلام کی حفاظت جہاد اکبر ہے، اور جو اس راستے میں جدوجہد کرے وہ غازی اور جو تحفظ ختم نبوتۖ کے سلسلے میں۔۔۔ لڑتا ہوا امر ہو جائے … وہ شہید ہے، ختم نبوتۖ کا تحفظ شفاعت نبویۖ کے حصول کا قریب ترین راستہ ہے… وطن عزیز پاکستان میں سینئر کالم نگاروں، تجزیہ نگاروں، دانش وروں، اینکرز اور اینکرنیوں کی پوری اک فوج ظفر موج ہے، لیکن ان میں سے کتنے ہیں کہ 7ستمبر جو تحفظ ختم نبوتۖ کے حوالے سے اگر ہفتے یا مہینے میں نہیں تو کم از کم سال میں ایک دفعہ ہی کالم لکھتے ہوں، یا انہوںنے کبھی ختم نبوتۖ کے خلاف ہونے والی سازشوں سے۔۔۔۔ قوم کو آگاہ کرنے کے لئے کبھی کوئی ٹی وی پروگرام کیا ہو؟ اگر حکمرانوں کے حق اور مخالفت میں بار بار کالم لکھے جاسکتے ہیں ، ملکی اور بین الاقوامی امور ہوں یا دیگر مسائل اور معاملات ان پر30,30 سال عنوان بدل بدل کے کالم لکھے جاسکتے ہیں … تجزیئے پیش کیے۔۔۔ جاسکتے ہیں، ٹی وی ٹاک شو کئے جاسکتے ہیں۔۔۔۔ تو تحفظ ختم نبوتۖ جیسے ۔۔۔۔عظیم الشان موضوع پر کالم کیوں نہیں لکھے جاسکتے؟ تجزیئے کیوں نہیں پیش کیے جاسکتے؟ ٹاک شو کیوں نہیں ہوسکتے؟ اب مجھے کوئی 7 ستمبر کے دن چھپنے والے اخبارات کے خصوصی ایڈیشنز کا حوالہ نہ بتا ے۔۔۔ ، ہر سال7 ستمبر کو جو یوم ختم نبوتۖ کے سلسلے میں خصوصی ایڈیشنز چھپتے ہیں … اس میں لکھنے والے۔۔۔۔ اکثر علماء کرام یا تحفظ ختم نبوتۖ کی جماعتوں کے عہدیداران ہوتے ہیں … میرا سوال تو ان سکہ بند سینئر کالم نگاروں، سینئر دانشوروں، سینئر تجزیہ کاروں، سینئر اینکرز اور سینئر اینکرنیوں سے ہے۔۔۔۔ کہ جنہوں نے اپنے ”سینئر سینگوں” پر ”علم و دانش”، ”شاعری، ادب” اور سیکولر ازم کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے … کیا وہ نہیں جانتے کہ تحفظ ختم نبوتۖ کے موضوع پر لکھنے کی۔۔۔۔۔ جتنی اشد ضرورت آج ہے۔۔۔۔ شائد اس کے بعد کبھی نہ ہو؟ جمعرات کے دن وطن عزیز کے عظیم دانشور اور روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر محترم مہتاب خان سے۔۔۔۔ ملاقات ہوئی۔۔۔۔ تو دوران گفتگو جہاں ان کے برادر اکبر محترم راجہ محمد عبارت خان مرحوم زیربحث رہے۔۔۔۔ وہاں ختم نبوتۖ کے خلاف ہونے والی عالمی سازشوں کے خلاف بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔۔۔۔
راجہ محمد عبارت خان مرحوم، چیف ایڈیٹر اوصاف محترم مہتاب خان کے بڑے بھائی تھے ، جن کا چند ماہ پہلے انتقال ہوا، مہتاب خان کا کہنا تھا ۔۔۔کہ جب میرے والد محترم فوت ہوئے … تب مجھے یتیمی کا اتنا احساس نہیں ہوا … جتنا بڑے بھائی جان راجہ عبارت خان کی وفات کے بعد ہوا، یہ بات ہے بھی حقیقت، راجہ محمد عبارت خان مرحوم نے۔۔۔۔ پھگواڑی مری سے لے کر۔۔۔۔ اسلام آباد تک صرف خاندانی معاملات ہی نہیں۔۔۔۔ بلکہ عوامی معاملات کو بھی نہایت خوش اسلوبی۔۔۔۔ سے سنبھال رکھا تھا … وہ ایک کھرے مسلمان اور سچے عاشق رسولۖ تھے … سفر ہو یا حضر، نمازوں کی پابندی کی کوشش کرتے تھے … اللہ پاک ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، چیف ایڈیٹر مہتاب خان کا کہنا تھا کہ ہاشمی صاحب! دعا کریں کہ اللہ ہم سے۔۔۔ دین کاکوئی ایسا کام لے لے۔۔۔۔ جس سے ہماری آخرت کی زندگی سنور جائے، ان کا کہنا تھا کہ ناموس رسالتۖ اور ختم نبوتۖ کے خلاف ہونے والی۔۔۔۔ سازشوں کے خلاف اللہ پاک نے روزنامہ اوصاف کو محافظین ناموس رسالتۖ کی صف میں کھڑا کیا ہے …تو یہ سب اللہ پاک کا کرم ہے، ہمیں دین اسلام اور پاکستان کے خلاف ہر قسم کے فتنوں سے بچتے ہوئے۔۔۔۔۔ دفاع ختم نبوتۖ اور دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دینا ہے، اگر مسلمان صحافی کا قلم ۔۔۔عقیدہ ختم نبوتۖ کو بیان کرنے سے شرمائے … تو یہ بڑی فکر کی بات ہے ، آج کل بعض ڈب کھڑبے اینکرز اور کالم نگاروں کو۔۔۔۔ مولانا ظفر علی خان بننے۔۔۔۔ کا شوق چرایا ہوا ہے … جو یہ بھی نہیں جانتے کہ مولانا ظفر علی خان ۔۔۔ صرف علم و ادب کے آفتاب، خطابت کے شہسوار، شاعری کے آسمان کے ماہتاب اور صحافت کے تاجدار ہی نہیں۔۔۔ بلکہ ختم نبوتۖ کے وفادار، رضاکار اور مجاہد بھی تھے … ان کا خطیبانہ بانکپن ہو ،یا شاعرانہ کاٹ، دونوں کا نشانہ مرزا غلام قادیانی ملعون ہی رہا … آج کے ظفر علی خان کہلوانے کے آرزو مند۔۔۔ امریکہ، یورپ اور اس کے سفارت خانوں کے۔۔۔۔۔۔ دست نگر ہیں … جبکہ مولانا ظفر علی خان وہ ہیں کہ۔۔۔ جنہیں نہ یورپ کی۔۔۔۔مادر پدر آزادی سے کوئی سروکار رہا۔۔۔۔ اور نہ ہی انہوں نے ہندوستان میں انگریزوں کی غلامی پر قناعت کرنا گوارا کیا۔۔۔۔۔ … مولانا ظفر علی خان نور اللہ مرقدہ نے۔۔۔۔ 1933 ء میں قادیانیت کے عوامی احتساب کے لئے ایک جماعت بنائی ، اس جماعت نے ملعون قادیانی کے خلاف عوامی اجتماعات شروع کئے ۔۔۔۔ تو فرنگی حکومت نے قادیانیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے… اندیشہ نقص کی آڑ میں۔۔۔۔4 مارچ1933 ء کو مولانا ظفر علی خان، مولانا احمد علی اور مولانا لال حسین اختر کو ان کے۔۔۔۔ دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا، ٹھاکر کیسر سنگھ مجسٹریٹ درجہ اول نے۔۔۔۔ تحفظ امن کے لئے ضمانت مانگی، عقیدت مندوں نے ضمانتیں داخل کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ تو مولانا ظفر علی خان اور ان کے ساتھیوں نے انکار کر دیا، عدالت نے مقدمہ کی بنیاد بننے والا نوٹس پڑھ کر سنایا کہ ”تمہارے (ظفر علی خان کے) اور احمدی جماعت کے درمیان اختلاف ہے … تم نے اس کے عقائد اور مذہبی پیشوا پر حملے کئے، جس سے نقص امن کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے ، وجہ بیان کرو، تم سے نیک چال چلنی ضمانت کیوں نہ طلب کی جائے؟
آزاد صحافت کے بادشاہ۔۔۔۔ مولانا ظفر علی خان نے عدالت کو جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔ کہ ”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کے۔۔۔ ہاتھوں مرزائیوں کو کسی قسم کاکوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔۔۔۔ لیکن جہاں تک مرزا غلام احمد قادیانی کا تعلق ہے … ہم اس کو ایک بار نہیں ہزار بار دجال کہیں گے، اس ملعو ن نے حضورۖ کی۔۔۔۔۔ ختم نبوتۖ میں اپنی جھوٹی نبوت کا ناپاک پیوند جوڑ کر ناموس رسالتۖ پر کھلم کھلا حملہ کیا ہے … اپنے اس عقیدے سے میں ایک منٹ کے کروڑویں…. حصے کے لئے بھی دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں…. کہ مرزا غلام احمد قادیانی دجال تھا، دجال تھا، دجال تھا … مولانا ظفر علی خان نے عدالت میں گرجتے ہوئے مزید فرمایا کہ… میں اس سلسلے میں انگریزی قانون کانہیں… بلکہ قانون محمدی ۖ کا پابند ہوں ”آج ایک دفعہ پھر دانش گاہوں، ادب گاہوں، شاعروں، صحافتی نرسریوں اور قلم کاروں میں…. کسی مولانا ظفر علی خان کی ضرورت ہے… کہ جو اپنے قلم، زبان اور دل و دماغ کو تحفظ ختم نبوتۖ اور تحفظ ناموس رسالتۖ کے لئے وقف کر دے ، مولانا ظفر علی خان نے کیا خوب فرمایا تھا کہ ۔۔۔۔
نماز اچھی، روزہ اچھا، حج اچھا ، زکوٰة اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلمان ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحاء کی عزت پر
———خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا———————–بشکریہ روزنامہ اوصاف