تحریر: اسرار ایوب
آٹھ 8کتوبر اور ایرا
وہ قیامت کیسے بھول سکتا ہوں جو اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اپنے دل پر محسوس کی،جو میری جنم بھومی راولاکوٹ میں بھی برپا ہوئی اور مجھے پال پوس کر بڑا کرنے والے شہرمظفرآباد پر بھی ٹوٹی،جس نے ان مناظر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اجاڑ دیاجن میں میری روح ہنستی کھیلتی تھی،جس نے کتنے ہی ایسے لوگوں کو مجھ سے چھین لیا جنکی یاد مجھے میری موت تک تڑپاتی رہے گی؟
آٹھ اکتوبر2005 کوزمین کے لرزنے سے اسقدر شور برپا ہوا کہ اپنی چیخ و پکار بھی سنائی نہیں دیتی تھی،زلزلے کے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ کئی جگہ چھتیں اور دیواریں اپنی بنیادوں سے کئی کئی سو فٹ دور جا گریں۔ بڑے بڑے پہاڑ ایک دوسرے کے سے ٹکرا کر چند لمحوں میں کچھ اس طرح ریزہ ریزہ ہو گئے کہ ان میں غرق ہونے والی بستیوں کا نشان تک باقی نہ رہا۔ مظفرآباد اور باغ کے درمیان چکار کے قریب تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر لمبی اور آدھا کلو میٹر چوڑی جھیل کو دیکھ کر کیا کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ یہاں زلزلے سے پہلے 275گھروں پر مشتمل ایک بستی آباد تھی؟ 73ہزار لوگ جاں بحق اور69412 زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں کئی معذور اورکئی تومفلوج ہی ہو گئے۔ کئی ایسے بھی تھے جنکے جسمانی اعضا کاٹ کر انہیں بڑے بڑے پتھروں اور ستونوں کے نیچے سے نکالا گیا۔ایک چھ سالہ بچی کی ٹانگ کاٹنی پڑی جس کے بہن بھائی اور ماں فوت گئے تھے جبکہ والدریڑھ کی ہڈی تڑوا بیٹھاتھا۔ایک گیارہ مہینے کے بچے کو اسکی ماں نے اتنی شدت کے ساتھ سینے سے لگایا کہ موت کے بعد بھی الگ نہیں ہوسکا،دونوں ایک ہی قبر میں دفن ہیں۔ایک بھائی گرلز کالج ہاسٹل (مظفرآباد)کے ملبے تلے دبی اپنی بہن سے تقریباً 24گھنٹے بات چیت کے ذریعے اس کا حوصلہ بڑھاتا رہا، اسے چھت کے ایک سوراخ سے پانی بھی پلاتا رہا لیکن باہر نہیں نکال سکا اور اس کی بہن اسے پکارتی پکارتی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔زندہ بچنے والوں کی اکثریت ”سٹریس ڈِس آرڈر“کا شکار ہوگئی۔
6 لاکھ گھر تباہ ہوئے اور35لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے۔ 6ہزار سکول اور8سو صحت کے مراکز ملبے کا ڈھیر بن گئے۔30ہزارمربع کلو میٹر سڑکیں بر باد ہو گئیں۔مواصلات،بجلی،پانی اورسیوریج کا70فیصد نظام نا قابلِ استعمال ہو گیا۔آزادکشمیر کے وزیرِ اعظم (وقت)نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ میں قبرستان کا وزیرِ اعظم ہوں۔

یہ تھے وہ حالات جن میں ”ایرا“کا قیام عمل میں آیاوہ بھی ایک ایسا کام کرنے کے لئے جو اس سے پہلے ہمارے ملک میں کسی نے کیا ہی نہیں تھا؟اس کے باوجوداس ادارے نے اڑھائی برس کی ریکارڈ مدت میں ”آنر ڈریون اپروچ“کے تحت 6لاکھ گھر تعمیر کروادیے، وہ بھی اس طرح کہ تقریباً5لاکھ لوگوں کو ”ارتھ کوئیک رزسٹنٹ“طرزِ تعمیرکی”ووکیشنل“ تربیت دی اور ”ٹول کِٹس“مہیا کیں تاکہ وہ ایرا کی رہنمائی و مالی معاونت سے اپنے گھر خود تعمیر کریں اور”ڈزاسٹر مینجمنٹ“ ان کی ثقافت کا حصہ بن سکے، اور ایسا ہی ہوا جس کا گواہ میں ذاتی طور پر ہوں کیونکہ میرا گھر بھی زلزلے کی نذر ہوگیا تھا لیکن جب میں اسے دوبارہ بنوانے لگاتوکیا دیکھتا ہوں کہ ایک عام مستری بھی زلزلے کے ”بلڈنگ کوڈ“ سے واقف ہو چکا ہے، اسی لئے تو ایرا کے ”رورل ہاؤسنگ پروگرام“کو بین الاقوامی سطح پر غیر معمولی پزیرائی حاصل ہوئی۔ان گھروں کے علاوہ ایرا نے 12سیکٹرز میں 11ہزار سے زائد پراجیکٹس مکمل کئے جنہیں کوئی بھی آزادکشمیر اور خیبر پختونخواہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔یہی نہیں بلکہ زلزلہ زدہ303یونین کونسلوں میں ورلڈ بینک کے سپانسر شدہ ”کمیونٹی بیسڈ ڈزاسٹر رِسک مینجمنٹ“(CBDRM) پروگرام کے تحت19ہزار سے زائدلوگوں کی تربیت بھی کی گئی جسے ڈزاسٹر مینجمنٹ کے بین الاقوامی ادارے یعنی UN/ISDRتک نے سراہا (اس پروگرام کا تفصیلی ذکر میں اپنی کتابTaming Disastersمیں کر چکا ہوں)، اسی پروگرام کو بنیاد بنا کر میں نے ایشائی ترقیاتی بینک،پاکستان ریزیڈنٹ مشن(جس کے ساتھ میں کام کررہا ہوں)کے ”نیشنل ڈزاسٹر رِسک مینجمنٹ فنڈ“ کے لئے CBDRMکی وہ SOPتیار کی جو COVID19کے تناظر میں امریکہ سے حال ہی میں شائع ہونے والی میری کتاب A Bigger Perspectiveکا حصہ بھی ہے۔ اس ادارے نے ایک اور خاص کام یہ کیا کہ زلزلے میں معذور ہونے والے 43000افراد کو مصنوعی اعضا کی فراہمی سے حصولِ روزگار تک معاونت فراہم کی۔
یہ بات بھی کم لوگ جانتے ہیں کہ ”جرمن ڈیٹ سویپ“ پروگرام کے تحت اعلی کارکردگی کے ذریعے ایرا نے پاکستان کے کندھوں سے سوا پانچ ارب روپئے کا قرض بھی اتارا۔تعلیمی اداروں میں ڈزاسٹر مینجمنٹ کا مضمون متعارف کروانا بھی ایک ضروری اقدام تھا سو”ایرا“نے اسے بھی اپنی ترجیحات میں شامل کیاا ور اپنے ”لنکیجزپروگرام“کے تحت مختلف تعلیمی اداروں کے ساتھ MOUسائن کر کے سرٹیفیکیٹ اور ڈپلومہ کورسز کے علاوہ سکول سیفٹی پروگرام شروع کروائے جن سے پانچ برس کی قلیل مدت میں ہی تقریباً500اساتذہ اور 3000طلبا و طالبات مستفید ہو ئے۔
اس ادارے کو تنقید کا نشانہ تو بنایا جاتا ہے لیکن یہ یاد نہیں کیا جاتا کہ اسے2011میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے ”ڈزاسٹر رِسک ری ڈکشن“ کے اعلی ترین ”ساساکاوا ایوارڈ“سے نوازا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ورلڈ بینک نے “GFDRR”(گلوبل فیسیلیٹی فار ڈزاسٹر رِسک ری ڈکشن)کے اشتراک سے جاری کردہ اپنے میگزین میں ”ایرا“کو کیس سٹڈی کے طور پر پیش کرتے ہوئے دنیا بھرکے ڈزاسٹر مینجمنٹ اداروں کو اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کی۔”انٹرنیشنل سٹنڈرڈ آرگنائزیشن“ نے بھی ایرا کو” سرٹیفائی“ کیا، اور یہ ملک کاواحد ادارہ تھا جہاں ”انظمامِ علم“کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا گیا جسے ”نیشنل پروڈکٹیویٹی آرگنائزیشن“(NPO) نے”ایشین پروڈکٹیویٹی آرگنائزیشن “(APO) کی جانب سے ”نالج مینجمنٹ فریم ورک فار پبلک سیکٹر آرگنائزیشنز“ کے تحت کی گئی ایک تربیتی ورکشاپ کے بعد ماڈل کے طور پراپنائے جانے کی سفارش کی،اس ورکشاپ کے اختتام پر ایرا کے”انظمامِ علم“کو 18ایشیائی ممالک کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا گیا۔
یہاں یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ ایرا کے جو پراجیکٹ بروقت مکمل نہ ہوئے ان کی ذمہ داری اس ادارے پر اس لئے نہیں ڈالی جا سکتی کہ ان کے لئے مختص شدہ 55ارب روپئے سے پیپلز پارٹی کی حکومت نے ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“شروع کر دیالیکن ذمہ داران سے ان فنڈز (جو زلزلہ زدگان کے نام پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے موصول ہوئے اور’بی آئی ایس پی‘کو منتقلی تک وزارتِ خزانہ کے اکاؤنٹ میں رہے)کا حساب مانگنے کے بجائے ایرا کو موردِ الزام ٹھہرایا دیاگیا۔ کسی نے یہ بھی نہ سوچا کہ منصوبہ جات کے بروقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے جو مالی نقصان ہوا(مثلاً سیمنٹ کی جو بوری کیرج سمیت 265روپئے میں دستیاب ہوا کرتی تھی کیرج کے بغیر575روپئے تک پہنچ گئی وغیرہ وغیرہ) اس کا ذمہ دار بھی ایرا نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ’ایرا‘ سے کوتاہیاں نہیں ہوئیں، بہت ہوئیں لیکن ان پر احمد ندیم قاسمی صاحب کا یہ شعر یاد آجاتا ہے کہ
اے میرے نقّادمیں بہت بُرا ہی سہی
اِتنا بُرا نہیں ہوں جتنا اچھا ہوں
کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹینٹ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں
contact@asrarayyub.com ای میل