لاہور(ویب ڈیسک) سابق وزیراعظم اورچیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ چلا رہی ہے۔ نیم مارشل لا تو لگ گیا ہے جبری علیحدگیوں کیلئے کس بے شرمی سے ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے، اس سے تحریک انصاف کیلئے ہمدردیاں بڑھنے کے ساتھ ووٹ بنک میں اضافہ ہورہا ہے۔ عارف علوی سے کو ئی اختلاف نہیں رابطے میں ہوں۔ اگر فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات چلیں گے تو جمہوریت تو ختم ہوگئی۔ ، اقتدار میں آئے تو آئین کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ ان خیالات کا اظہار سابق وزیراعظم نے غیر ملکی میڈیا ، صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو اور ٹویٹر پر ٹویٹس میں کیا۔ ٹویٹر پر اپنےایک بیان میں انہوں نے لکھا کہ ہمارے بنیادی حقوق پر ایسی تباہ کن یلغار، جو قوم نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی، کے ساتھ تحریکِ انصاف کیخلاف بدترین کریک ڈاؤن سے پہلے قانون کی حکمرانی کی عالمی درجہ بندی (رول آف لاء انڈیکس) میں پاکستان 140 میں سے 129ویں نمبر پر تھا۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم میانمار اور سوڈان کی سطح تک آ گِرے ہیں جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذالعمل ہے۔ قانون کے حکمرانی کے بغیر ہمیں جمہوریت (آزادی) میسر ہو گی نہ ہی خوشحالی اور (ایک اچھے) مستقبل کا تصوّر ممکن ہے۔
ایک اور ٹویٹ میں عمران خان نے لکھا کہ جبری علیحدگیوں کیلئے کس بے شرمی سے ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے، یہ مناظر خود اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس سب سے تحریک انصاف کیلئے ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں اور اس کے ووٹ بنک میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان فسطائی حربوں سے پاکستان کے عوام اور اداروں کے مابین خلیج بھی بڑھ رہی ہے۔
عمران خان نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئے، جہاں انہوں نے میڈیا سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی سے ناراضگی کی خبروں کی تردید کردی۔
صحافی نے سوال کیا کہ صدر کے ساتھ کیا کوئی رابطہ ہے۔ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ نہیں، یہ بات درست نہیں میراعارف علوی سے رابطہ نہیں۔ نظر ثانی قانون پر صدر علوی دستخط نہ بھی کرتےتو قانون بن جانا تھا۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابات کے علاوہ اس وقت کوئی چارہ نہیں، ہم نے ملک کی خاطرمذاکرات کیلئے دعوت دی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی چیزہے، اسٹیبلشمنٹ گورنمنٹ چلا رہی ہے۔
بعد ازاں عدالت پیشی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ایسی چیزیں تو کبھی ہوئی نہیں یہ تو بلیک میل کر رہے ہیں، آپ فیصلہ کرلیں کہ ملک آئین پر چلے گا یا ڈنڈے کے زور پر۔ میں تو آئین پر چل رہا تھا، آئین کے مطابق 90 روزمیں انتخابات ہونے تھے، لیکن انتخابات نہیں ہوئے کیونکہ وہ ڈرے ہوئے ہیں، سب کو پتا ہے الیکشن ہوئے تو ہم جیت جائیں گے، یہ لوگ انتخابات سے بھاگنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ ابھی میرا عوامی جلسہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
برطانوی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا ہے کہ میری جماعت کو انتخابات میں جیت کے لیے الیکٹ ایبلز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا سب سے بڑا ووٹ بینک ہے۔ جب ووٹ بینک اتنا ہو تو لوگوں کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ میری جماعت صرف اس وقت کارنر ہوگی جب اس کا ووٹ بینک ختم ہوگا جو ابھی برقرار ہے۔ ووٹ بینک تو پی ڈی ایم کا گرا ہے۔ جب بھی الیکشن ہوں گے پی ٹی آئی جیتے گی۔ پنجاب میں محض 15 یا 20 ٹکٹ ہولڈر گرفتار ہوئے ہیں۔ ہم نے 300 سے زائد کو ٹکٹ دیئے ہیں۔
9 مئی کے واقعات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں خود کو تنگ گلی میں محسوس نہیں کر رہا، مذاکرات تو چلتے رہے ہیں لیکن دوسری جانب سے کوئی رد عمل نہیں ہے۔ مذاکرات وہ چاہتے ہیں جو کوئی حل چاہتے ہیں اور حل انتخابات ہیں۔ حکمران الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ میرا مقصد صرف جلد انتخابات کروا کر سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام ختم کروانا تھا اور ہے۔ ملک ڈیفالٹ ہو رہا ہے اور تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ سب پی ٹی آئی سے ڈرے ہوئے ہیں۔
نو مئی کے پرتشدد واقعات سے متعلق انہوں نے کہا کہ آگ تو چار یا پانچ جگہ لگی جن میں کور کمانڈر ہاؤس اور ریڈیو پاکستان پشاور جیسی جگہیں تھیں، وہاں کیمرے ہوں گے، سیف سٹی کے کیمرے ہیں سب معلوم ہو جائے گا۔ یہ انکوائری تو بہت سیدھی سادھی ہے۔ آئین اور قانون ہمیں پرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے۔ جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کرنا ہمارا حق ہے۔ اندر ہماری پارٹی نہیں گئی بلکہ ہمارے لوگ انہیں روک رہے تھے۔
پارٹی پر پابندی یا فوجی عدالت میں مقدمے کا کتنا امکان ہے؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ججز فیصلوں پر عمل نہیں ہو رہا۔ وہ ضمانت دیتے ہیں، حکومت پھر گرفتار کر لیتی ہے۔ سپریم کورٹ کے 14 مئی کے حکم کے باوجود انتخابات نہیں ہوئے۔ اگر فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات چلیں گے تو جمہوریت تو ختم ہوگئی۔ نیم مارشل لا تو لگ گیا ہے۔ ان کا پہلے پی ٹی آئی کو ختم کرکے نواز شریف کو بحال کروانا مقصد ہے۔
عمران خان نے کہا کہ آئین کو سامنے رکھ کر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 90 دن میں انتخابات پھر ہو جانے چاہیے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جو بھی ہوگا انہیں ان کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ ان کے خلاف ریفرنس اس وقت کے وزیر قانون اور قانونی ماہرین نے اس طرح پیش نہیں کیا گیا تھا جیسے ہونا چاہیے تھا۔ کیا افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کریں گے؟ اس بارے میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات اچھے رکھنے چاہییں۔ افغانستان کی خواتین خود اپنے حقوق لے لیں گی۔ ہمیں ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ان کا اصرار تھا کہ بھارت میں مودی حکومت کی مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے کسی ملک نے ان کے ساتھ تعلقات کبھی خراب نہیں کیے۔ ہمیں اپنے فیصلے قومی مفاد میں کرنے چاہیں۔