اسلام آباد(نیوزٹویو)سپریم کورٹ آف پاکستان نے انتخابات سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ میں 90 دنوں میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا تحریکِ انصاف اور سپریم کورٹ بار کی درخواست ایک جیسی ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ جی بالکل دونوں درخواستوں میں یکساں مؤقف ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست کب دائر کی؟
عابد زبیری نے بتایا کہ 16 اگست کو درخواست دائر کی جس میں 90 دنوں میں انتخابات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ یہ اہم معاملہ ہے مگر اسی دن درخواست پر نمبر کیسے لگ گیا؟ کیا آپ نے جلد سماعت کی درخواست دائر کی تھی؟
عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی ہم نے جلد سماعت کی متفرق درخواست دائر کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے ابھی نوٹ ملا ہے کہ آپ نے کوئی جلد سماعت کی درخواست نہیں دی۔
عابد زبیری نے جواب دیا کہ شاید مجھ سے ہی غلطی ہو گئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ یہ بھی بتائیں کہ مردم شماری کرانے کی ضرورت کب ہوتی ہے؟ کیا مردم شماری کا تعلق براہ راست انتخابات سے ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر آئین میں کچھ درج ہے تو وہ حرفِ آخر ہو گا، اس سے پہلے مردم شماری کب ہوئی تھی؟
وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ اس سے پہلے عبوری مردم شماری 2017ء میں ہوئی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عبوری مردم شماری کے بعد اب حتمی مردم شماری ہو رہی ہے؟ آپ تو پریس ریلیز دکھا کر دلائل دے رہے ہیں، عابد صاحب حقائق بتانا وکیل کا کام ہے عدالت کا نہیں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ یہ پریس ریلیز ہی دستیاب تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر کو سپریم کورٹ میں غلط بیانی نہیں کرنی چاہیے۔
عابد زبیری نے کہا کہ میں نے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو جلد سماعت کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم وکالت کرتے وقت اپنے کام خود کرتے تھے، کسی پر انحصار نہیں کرتے تھے، انتخاب کا اہم ترین معاملہ تھا تو جلد سماعت کی درخواست کیوں نہیں کی؟ مردم شماری شروع اور ختم کب ہوئی؟
وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ یہ میرے علم میں نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لگتا ہے مردم شماری 18 ماہ پہلے ہی شروع ہوئی ہو گی، ادھر اُدھر کی باتیں نہ کریں، ہمیں بتائیں مردم شماری اگر غلط ہے تو اب کیا ہو گا؟ آپ کی بات مان لیں کہ نئی مردم شماری غلط ہے تو انتخابات اب کیسے ہوں گے؟ کیا 2017ء کی مردم شماری پر انتخابات ہوں گے؟ کوئی تو حل بتایا جائے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کیا آئین میں ایسا کچھ درج ہے کہ ہر انتحابات سے قبل مردم شماری ہو؟
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں کہ ہر انتحابات سے قبل مردم لازم ہے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار آئین کہتا ہے نئی مردم شماری ہونی چاہیے، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کیسے غیرقانونی تھا؟
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نگراں وزرائے اعلیٰ اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کس قانون میں لکھا ہے نگراں وزرائے سی سی آئی میں شرکت نہیں کر سکتے؟
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آئین میں کہاں درج ہے کہ انتخابات 90 دن کے بعد ہوں گے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نگراں سیٹ اپ کی اجازت تو آئین دیتا ہے۔
عابد زبیری نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے نگراں وزرائے اعلیٰ 90 دن کے بعد غیر آئینی ہو گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جذباتی ہو کر دلائل نہ دیں، حقائق سے بتائیں، کیا آپ2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات چاہتے ہیں؟ہاں یا ناں؟
وکیل عابد زبیری نے جواب کہا کہ انتخابات 90 دنوں میں ہونے چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کوئی نہ کوئی پوزیشن لینا ہو گی زبیری صاحب، ایسے نہیں چلے گا، ہمیں بھی آئین پر چلنا ہے اور آپ کو بھی، یہاں ہماری یا آپ کی مرضی نہیں چل سکتی۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ کیس سے متعلق ریکارڈ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس سوال کیا کہ عابد زبیری آپ ہمیں کیا دستاویزات دے رہے ہیں؟
وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ 2017ء کی مردم شماری کے دستاویزات ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2017ء کے بعد مردم شماری کا آغاز کرنے میں کتنے سال لگے؟ 2021 میں مردم شماری کا دوبارہ آغاز ہوا، آپ دوسری بار غلط بیانیاں کررہے ہیں، آپ عدالت کو غلط حقائق بتا رہے ہیں، ایک چیز منسوخ ہوگئی تو اس کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ 2017ء میں فیصلہ ہوا تو مردم شماری کا عمل 6 سال بعد کیوں شروع نہ ہوا؟ کس نے مردم شماری کا آغاز تاخیر سے کیا؟ آپ حقائق پر مقدمہ نہیں چلا رہے، بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا تھے، 90 دنوں میں انتخابات کی تاخیر کس نے کی اس پر آپ انگلی نہیں اٹھاتے؟ آپ کہتے ہیں صدر مملکت نے تاریخ دینا تھی، آپ کہہ رہے ہیں کہ تاریخ دینے کا اختیار صدرِ مملکت کا ہے، اس کا مطلب ہے آپ الیکشن ایکٹ کی سیکشن57 کو چیلنج نہیں کر رہے، اگر صرف انتخابات کی بات کریں تو ہم فیصلہ کرسکتے ہیں، اگر آپ آئینی تشریح کی بات کریں گے تو ہمیں 5 رکنی بینچ بنانا پڑے گا، دنیا کے سارے مسائل اس درخواست میں نہ لائیں، صرف انتخابات کی بات ہے تو ہم ابھی نوٹس کر دیتے ہیں، ایک سوال یہ ہے کہ انتخابات کا اعلان کون کرسکتا ہے، دوسرا سوال یہ ہے کیا اس وقت 90 دنوں میں الیکشن ہوسکتے ہیں؟
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ ہمارا کیس 90 دنوں میں انتخابات کا ہے، آرٹیکل 48 صدرِ مملکت کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار دیتا ہے، 90 دنوں میں انتخابات کے آئینی مینڈیٹ کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا، صدرِ مملکت تاریخ نہیں دیں گے تو پھر تاریخ کون دے گا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سوال کیا کہ پوری بات بتائیں، کیا صدرِ مملکت نے تاریخ دی؟ تحریک انصاف نے درخواست کس کے توسط سے دائر کی؟
وکیل علی ظفر نے بتایا کہ عمر ایوب کے ذریعے درخواست دائر کی گئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمر ایوب عدالت میں موجود ہیں؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ دیگر رہنماؤں کی طرح عمر ایوب بھی روپوش ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عمر ایوب کے دادا کون تھے؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ عمر ایوب، ایوب خان کے پوتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ایوب خان آمر تھے یا جمہوری رہنما تھے، ایوب خان نے اپنے دور میں انتخابات کرائے تھے یا نہیں؟ ایوب خان نے 1956ء کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی تھی، کیا عمر ایوب اپنے دادا کے اقدام کی مذمت کریں گے یا جمہوری ہوچکے ہیں؟ چلیں ابھی ان باتوں کو رہنے دیں، بعد میں کبھی پوچھیں گے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیں؟
درخواست گزار کے وکلاء نے کہا کہ جی بالکل الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ نظریہ ضرورت کے تحت انتحابات وقت پر کرانے کے اقدامات کرنے چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ آرٹیکل 19 کے تحت ایک خط لکھ کر پوچھ لیتے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ علی ظفر صاحب کی بات سے اتفاق نہیں، نظریہ ضرورت کچھ نہیں ہوتا، جس جس نے آئینی ذمے داری پوری نہیں کی نتائج کا سامنا کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو بلائیں یا پھر صدرِ مملکت کو؟ صدر کو تو ہم بلا نہیں سکتے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزاروں کے مطابق الیکشن کمیشن نے مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں شروع کردیں، بتایا گیا کہ حلقہ بندیوں کا عمل 14 دسمبر تک مکمل ہوگا، درخواست گزار مردم شماری کے عمل، منظوری اور حلقہ بندیوں کے عمل سے مطمئن نہیں، درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ سارا عمل انتخابات کی تاخیر کا بہانہ ہے، درخواست گزاروں نے کہا کہ الیکشن 90 دنوں میں کرانا آئینی تقاضہ ہے، درخواست گزاروں کے مطابق حلقہ بندیوں اورمردم شماری کے بعد 90 دنوں میں الیکشن ممکن نہیں، درخواست گزاروں سے پوچھا گیا کہ الیکشن کی تاریخ نہ دینے کا ذمے دار کون ہے، درخواست گزاروں نے عدالتی سوال کا مختلف انداز میں جواب دیا، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ آج الیکشن کا فیصلہ ہو تو 90 دنوں میں الیکسن ممکن نہیں۔
واضح رہے کہ 90 دنوں میں عام انتخابات کرانے کے لیے سپریم کورٹ بار، پی ٹی آئی اور دیگر نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔