اعلیٰ عدلیہ کسی کو برطرف کرے توپارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے مخصوص فرد کو بحال نہیں کرسکتی،سپریم کورٹ

اسلام آباد(نیوزٹویو) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کسی کو برطرف کردے تو پا رلیمنٹ کسی مخصوص فردکو قانون سازی کے ذریعے بحال نہیں کر سکتی سپریم کورٹ نےسوال اٹھایا ہےکہ پارلیمنٹ نے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا؟ سوموار کوسپریم کورٹ میں 16ہزار برطرف ملازمین کی اپیلوں پر جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی،اعتزاز احسن اور وسیم سجاد پیش ہوئے۔آئی بی سے برطرف کیے گئے ملازمین کے وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1996 میں نگران حکومت نے آئی بی ملازمین کو برطرف کیا تھا، نگران حکومت کو برطرفی کا اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایکٹ کو صحیح طریقے سے پرکھا نہیں گیا آئی بی افسران سول سرونٹ ہیں ان پر عدالتی فیصلہ لاگو نہیں ہوتا جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ نہیں کہہ رہا کہ ایک جماعت کے بھرتی کیے ملازمین برطرف کیے جائیں، پارلیمنٹ نے لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا؟جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ نگران حکومت کےمعاملے پرسپریم کورٹ سنہ 2000میں فیصلہ دے چکی ہے فیصلے کے 21 سال بعد کسی اور نظرثانی کیس میں مقدمہ دوبارہ نہیں کھول سکتے، وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ملازمین بحالی کے قانون کی غلط تشریح کی جسٹس عمر عطا بندیا ل نے سوئی گیس ملازمین کے وکیل وسیم سجاد سے استفسار کیا کہ کیا سوئی گیس ملازمین ٹیسٹ اور انٹرویو دےکر بھرتی ہوئے تھے جس پر وسیم سجاد نے جواب دیا کہ واک-ان انٹرویوز کے ذریعے بھرتیاں ہوئی تھیں

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اگر سپریم کورٹ کسی کو برطرف کر دے تو پارلیمنٹ کی قانون سازی سے کسی مخصوص فرد کو بحال نہیں کیا جا سکتا ہے، ختم شدہ کنٹریکٹ 11سال بعد کیسے بحال ہوگئے،سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے شواہد کہاں ہیں؟ کیا تمام ملازمین دہشتگردی کی کارروائی میں زخمی ہوئے تھے؟ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے شواہد کہاں ہیں وکیل سوئی گیس وسیم سجاد نے کہا پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت ملازمین کو بحال کیا گیا، پارلیمان اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ ملازمین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے عدالت پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث منگوا کر جائزہ لے، اس عمر میں ملازمین کہاں جائیں گے؟ عدالت نے وسیم سجاد سے تحریری دلا ئل مانگ لیےجسٹسس سجاد علی شاہ نے ملازمین کے وکلا سے استفسار کیا کہ ملازمین کی بحالی کا قانون کس طرح آئین کے مطابق ہے قانون آئین کے مطابق ہونے پر آپ نے ایک دلیل بھی نہیں دی

وکیل افتخار گیلانی نے کہا سپریم کورٹ خود کہہ چکی کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے قانون سازوں کی بصیرت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے سپریم کورٹ اپنے فیصلےپر نظر ثانی کرے جبکہ عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں