تڑیوں کا دور،ایمپائر کی جیت—ویژن -راجہ عاطف ذوالفقار

پوٹھوہاری زبان میں تَڑی لگانا دھمکی لگانے کے معنوں میں لیا جاتا ہے، تاہم ان میں ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ دھمکی کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہےجبکہ تَڑی کو عموماَ کم ظرفی پر مخمول کرتے ہوئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ 90 کی دہائی میں پھُسپھُسی سی تحریک انصاف بنانے والے سابق کرکٹرعمران خان 2011 میں اس وقت اچانک پچھلی دو ٹانگوں پر کھڑے ہو گئے جب انہیں پولو گراؤنڈ کے جاکی نے ایڑھ لگائی۔۔۔۔۔۔ مینار پاکستان کے جلسے سے لے کر موصوف مسلسل تڑیوں کو سلسلہ جاری رکھے ہو ئے ہیں۔ عمران خان نیازی نہ صرف تڑیاں مسلسل لگاتے رہے ہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کی نقلیں اتار کر بھی اپنے تماش بینوں سے داد وصول کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اوئے نوازشریف ، بلے سے پھینٹا لگانے، آئی جی کو ہاتھوں سے پھانسی دینے وغیرہ جیسی تڑیاں جلسوں کے سٹیج اور دھرنوں کنٹینروں سے شروع کیں جو مسند اقتدار پر بیٹھ جانے کے باوجود جاری رہیں۔ آج بیوروکریسی سے عدم تعاون، مخالفین سے ملے ہونے کا رونا روتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ نہیں چھوڑوں گا کی تڑیوں کی گردان والے کپتان کی کابینہ بیوروکریسی کے ساتھ یہی کچھ کرتی رہی ہے اور کر رہی ہے۔ فواد چوہدری نے ملک کی تمام بیوروکریسی کو تڑی لگائی تھی کہ پی ٹی آئی کی مرضی سے چلنا ہو گا،  ورنہ گھر جاؤ، متعد پولیس اور انتظامی افسران کے خلاف اپنی مرضی سے نہ چلنے پر کارروائیاں کی گئیں اور اس کے بعد صوبائی وزراء راجہ بشارت ہوں یا صمصام بخاری ( فون کالز لیکس) سمیت کپتان کے سبھی کھلاڑی تڑیوں کے معاملے پر اپنے امام کی سنت پر عمل پیرا ہیں۔ تڑیوں کا سلسلہ اپوزیشن اور سیاسی مخالفین پر تو بہت فراخدلی سے جاری رہتا ہے مگر اب تڑیاں بہت آگے جانے لگی ہیں۔ اب نامعلوم نشانوں پر تَڑیوں کے تیر پھینکے جانے لگے ہیں۔ پچھلے دنوں وفاقی وزیر فیصل وؤڈا نے تَڑی لگائی کہ اگر مائنس ون کیا گیا تو ہمارے دماغ، زبانیں اور ہاتھ بے قابو ہو جائیں گے، یہ تَڑی پتہ نہیں کس کو تھی، مگر وہ یہ بھول گئے کہ چند ہفتے قبل ہی وہ ایک بوٹ میز پر رکھ کر ٹی وی پروگرام میں بیٹھے اپوزیشن کو تَڑیاں لگا رہے تھے۔ وزیراعظم اسمبلی میں جانے کا تکلف تو مجبوراً کر ہی بیٹھے مگر تڑیاں لگائے بغیر نہ رہے، اب پرانی عادتیں اتنی آسانی سے تو جاتی نہیں۔ مگر ان تڑیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈ کے چوہدری جو گاؤں والوں کو کہتے تھے کہ اسے چھے ماہ تو دیں، دو سال بعد اب ان کی سرپرستی سے کنارہ کش نظر آتے ہیں، اور مزید بدنامی اپنے سر تھوپنے پر تیار نہیں لگتے۔ کیا کیا نہیں کیا،  مگر گلیاں سنجیاں کروا کر تمام پنڈ کو اندر کروا کر اکیلے ہی دوڑا کر ریس پھر بھی نہ جیتنے ترینی جہاز کے ذریعے درجنوں ادھارے ملا کر حکومت بنوانے، پھر دیار غیر سے کھربوں کے قرضے اپنی گارنٹی پر دلوانے کے باوجود  ابھ تک مایوسی کے سوا انہیں کچھ نہیں ملا اقتدار اعلیٰ پر براجمان  ہو کریہ کہنا کہ میرے علاوہ کوئی ہی چوائس نہیں۔۔۔ یہ ایک نئی تَڑی ہے، مگر اب ملک اب کسی تڑی پر چلا یا نہیں جا سکتا کیونکہ  عوام کی کمر مہنگا ئی نے توڑ کر رکھ دی ہے ابھی تک کسی تڑی کے اثرات غریب آدمی تک نہیں پہنچے ایسی تڑیوں کو بہرحال بھُگتنا عوام کو ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ اول آخر پاکستان ہی ہے،  نِکے تو کئی آئے اور کئی گئے۔ گو کہ تڑیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا مگرخا ص و عوام میں یہ سوچ پیدا پو چکی ہے تڑیوں پر ملک اور امور مملکت نہیں چلا کرتے ہاں اگر حکومت تڑیاں لگا کرچینی ،آٹا اور مہنگائی کرنے والی مافیا پر قا بو پانے میں کا میاب ہو جا تی تو اپنے بڑوں اورچھوٹوں سے داد وصول کر سکتی تھی اب تو تڑیاں دینے کا رواج ا تنا عام ہو گیا کہ دیکھا دیکھی تڑی بازی نے مقابلے کی شکل ا ختیار کر لی ہے لیکن اس مقابلے میں جیت تڑی بازوں کی نہیں بلکہ ان کی ہوگی جو اس مقابلے کے ایمپائرہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں