جسٹس مظاہر علی کا سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری پر اعتراض،قاضی فائزعیسیٰ کوالگ کرنےکامطالبہ

اسلام آباد(نیوزٹویو) سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری پر اعتراضات اٹھا دئیے ہیں اورمطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز خود کوسماعت سے الگ کریں ـ
جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف دائر ریفرنسز سننے والی جوڈیشل کونسل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے شوکاز نوٹس کا 18 صفحات پر مشتمل ابتدائی جواب دے دیا ہے جواب میں انہوں نے کہا ہےکہ یہ 28 اکتوبر 2023 کو ملنے والے نوٹس کا جواب نہیں ہے اور میرٹ پر جواب بھی نہیں ہے۔ جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے ابتدائی جواب کے بارے میں کہا کہ یہ نوٹس سے منسلک مختلف معاملات کی نشان دہی، معلومات اور دستاویزات سے متعلق ہے، جو مجھے درکار ہیں کیونکہ جواب دینے کے لیے یہ دستاویزات کی ضرورت ہے۔ جس میں انہوں نے کونسل میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس سردار طارق مسعود کی شمولیت پر اعتراض کیا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے جواب میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے شفاف ٹرائل جج کا حق قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی پریس ریلیز میری رائے کے بغیر جاری کرنے سے میرے بنیادی حقوق متاثر ہوئے اور کونسل کسی بھی جج کے خلاف اس وقت کارروائی کر سکتی ہے جب متفقہ فیصلہ ہو اور اکثریتی فیصلے کے ذریعے کسی جج کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کونسل کے رولز کو غیر آئینی قرار دینے کی رائے دے چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ الزامات کی تصدیق کیے بغیر مجھے شوکاز نوٹس بھیجا گیا، جو بنیادی حقوق کے منافی ہے کیونکہ کونسل کے اجلاس میں میرے خلاف شواہد کا جائزہ نہیں لیا گیا۔
اعتراضات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں میری تعیناتی کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشرف فیصلے کے سبب جوڈیشل کمیشن میں میری تعیناتی کی مخالفت کی تھی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے میرے خلاف شکایات پر رائے دینے میں جان بوجھ کر تاخیر کی۔
انہوں نے کہا کہ 3 اپریل 2023 کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے سابق چیف جسٹس کو خط لکھ کر میرے خلاف کارروائی شروع کرنے کی بات کی۔
جوڈیشل کونسل میں جمع جواب میں انہوں نے کہا کہ دونوں معزز جج صاحبان کو میرے خلاف شکایت نہیں سننی چاہیے، جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس میں سماعت کے دوران جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراض کیا گیا تو اعتراض پر دونوں جج صاحبان عدالتی بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔
جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کہا کہ شکایات میں میرے اوپر مبینہ آڈیو کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن مبینہ آڈیو کی کبھی تصدیق نہیں کرائی گئی اور مبینہ آڈیوز کے لیے کمیشن تشکیل دیا گیا، کمیشن میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم افغان شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خلاف لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں، میں شکایات اور دیگر مواد تک رسائی نہ ہونے کے سبب مفلوج ہوں، مجھے مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ میرے خلاف جوڈیشل کونسل میں بھیجی گئی شکایات سیاسی مقاصد کے تحت ہیں، میرے خلاف شکایات میں شفافیت کا فقدان ہے اور غیر قانونی ہے اور جوڈیشل کونسل میں شامل اراکین میرے بارے میں جانب دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کے جاری کردہ اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانب دار ہے جس کا جواب نہیں دیا جا سکتا،جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کی پریس ریلیز میری رضا مندی کے بغیر جاری کی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ پریس ریلیز کا مقصد میرا میڈیا ٹرائل اور عوام کی نظر میں تضحیک کرنا تھی، میرے خلاف کارروائی امتیازی سلوک اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ جوڈیشل کونسل کے تمام فیصلے جانب دار ہونے کی وجہ سے غیر قانونی تصور ہوں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے مؤقف اپنایا کہ جسٹس سردار طارق کے خلاف شکایت پر ان کو شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر شکایت کنندہ آمنہ ملک کو نوٹس کیا گیا، کونسل کے رکن جسٹس سردار طارق مسعودکے خلاف بھی شکایات 27 اکتوبر کے اجلاس میں زیر غور تھیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں