جس قوم کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اس قوم کی آواز سنی جاتی ہے، شہباز شریف

اسلام آباد(نیوزٹویو)وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ جس قوم کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اس قوم کی آواز سنی جاتی ہے۔
اسلام آباد میں زیادہ ٹیکس دینے والے افراد، کمپنیوں اور برآمدکنندگان کے لیے ایکسی لینس ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فلسطین میں جاری اسرائیلی بر بریت کی مذمت کی، ان کا کہنا تھا کہ اس تباہی میں شہید ہونے والے بچوں کی مثال نہیں ملتی، کل جو قرارداد منظور ہوئی اس پر عمل در آمد ضروری ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس تقریب کا واحد مقصد تمام ہیروز کو جو یہاں شریک ہیں جنہوں نے اچھے ٹیکس دہندہ ہونے کے ناطے محنت کی کمائی سے ٹیکس ادا کیا اور شبانہ روز محنت کے ذریعے پاکستان کی ایکسپورٹس میں شاندار خدمات انجام دین ان کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تقریب کے ذریعے قوم کو پیغام ملنا چاہیے کہ پاکستانی کے جوحالات ہیں ان کو اگر ہم نے حل کرنا ہے تو جس طرح گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں اسی طرح ایک نجی شعبہ ہے اور ایک حکومت ہے، ہمیں عوام کے مسائل حل کرنے ہیں اور سرخ فیتے کو ختم کرنا ہے اور نااہلیوں کو ختم کرنا ہے اور ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس کے ذریعے آپ اپنے شعبوں میں محنت کر کے پاکستان کو معاشی ترقی کی دوڑ میں بڑھاسکیں جس میں وہ بہت پیچھے رہ گیا ہے، ہمیں عوام کے مسائل حل کرنے ہیں، سرخ فیتے کو ختم کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں تمام شرکا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، ان لوگوں کو اعزازات سے نوازنا انتہائی ضروری ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا کام تجارت کرنا نہیں بلکہ آپ سے مشورہ لینا اور آپ سے سیکھنا ہے اور ایسی پالیسی بنانی ہے جس سے پاکستان آئندہ آنے والے سالوں میں ترقی کی دوڑ میں شامل ہوجائے، جس قوم کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اس قوم کی آواز سنی جاتی ہے، کمزور کی آواز کوئی نہیں سنتا ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ایف بی آر کی تنظیم نو کر رہے ہیں اور اگلے مہینے کنسلٹنٹس بھی تعینات کرلیے جائیں گے، ہمیں اس کام کے لیے وقت درکار ہے۔
شہباز شریف نے بتایا کہ مہنگے تیل سے بجلی کی پیداوار کو بتدریج ختم کرنا ہوگا، محصولات کا ہدف 9کھرب روپے ہے، منفرد ٹیکس پالیسی لانا ہوگی، ہم محنت اور عزم سے ملک کو معاشی لحاظ سے مستحکم کریں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اگر اب ہم کشکول نا بھی لے کے جائیں تب بھی دوسرے کہتے ہیں کہ کشکول ان کے بغل میں ہے، یہ اپنے گریبان میں جھانکنے کا موقع ہے، دوسری قومیں ہم سے آگے چلی گئی مگر ہمیں قرضے اتارنے ہیں، قرضے لے کر تو ہم تنخواہیں دے رہے ہیں، ہم کب تک ان قرضوں کی زندگی گزاریں گے؟
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں قرضوں کے پہاڑ کو ختم کرنا ہوگا، ہمیں ٹیکس سلیب کو کم کرنا چاہیے، ہمیں اختراعی ٹیکس پالیسی لانی ہوگی، ان تمام چیزوں پر کام شروع ہوگیا ہے۔
وزیر اعظ، نے بتایا کہ ضروری ہے کہ ہم دن رات محنت کریں، زراعت کو ترقی دیں، آئی ٹی کو آگے لے کر جائیں، آئی ٹی معیشت کا پہیہ تیزی سے گھما سکتا ہے، پچیس دنوں میں ہم نے معیشت کے حوالے سے کام کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگلے مہینے آئی ایم ایف کی قسط آجائے گی اور اس کے بعد ہمیں ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہے،اس کا ہروگرام استحکام کے لیے ہے لیکن جب تک ہم روزگار پیدا نہیں کریں گے تب تک کچھ نہیں ہوگا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے 16 ماہ میں پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، یہی وجہ ہے کہ عبوری حکومت میں بھی استحکام رہا، ایس آئی ایف سی ایک ادارہ بن چکا ہے، اس کا واحد مقصد سرخ فیتے جو ختم کرنا ہے اور سرمایہ کاری کو بڑھانا ہے۔
صدر مسلم لیگ (ن) نے بتایا کہ ہم ایئر پورٹس کو آؤٹ سورس، پی آئی اے کی نجکاری کرنے جارہے ہیں، کو ٹیکس جمع کرنے والے ہیں وہ بھی ہمارے ہیروز ہیں، جو اچھی کارکردگی کرتے ہیں ہم ان کو ایوارڈز اور میڈلز دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ میاں منشا نے 26 ارب کا ٹیکس دیا ہے، وہ ہمارے نمبر ون ٹیکس دینے والے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں