حلف نامہ یا کاغذ کا ٹکڑا -اصغرچوہدری

                                                                               نقطہ ! اصغر چوہدری

سابق اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان اسمبلی کو حلف کے مندرجات یاد کروا دہیے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ  اس ایوان کے تقدس اور اسپیکر کی چیئر کے تقدس کا تحفظ حلف اٹھانے والوں نے کرنا ہے۔سابق اسپیکر نے ارکان قومی اسمبلی کو حلف نامہ یاد کروا کے توجہ کہیں اور بھی مبذول کروائی ہے ۔کیا عملی زندگی میں اپنے منصب کے حلف کو اس کے مندرجات کے مطابق اہمیت دی جاتی ہے ؟ اس حلف کی پاسداری مقدم ہوتی ہے ؟عملی زندگی میں اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو بڑے بڑے ایوانوں سے لے کر بڑے عہدوں تک ہمیں جواب نفی میں ملتا ہے ،شاید حلف کو ہم صرف ایک عبارت کے طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں اس کی پاسداری ہمارے لیئے ترجیح نہیں ہوتی  ۔ایسی مثالیں بےشمار موجود ہیں اگر اپنے منصب کےحلف کی پاسداری کی جاتی تو کھبی بھی ملک میں آہین پامال نہیں ہوتا ،ڈاکٹرز مسیحاوں کے روپ میں ملتے ،وکیل انصاف کے پہرے دار نظر آتے ،قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کو پاوں تل نہ روندتے ۔ہمارا معاشرہ ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ،تفصیل میں بات کہیں اور نکل جائے گئی اگر ہم 22 کروڑ عوام کی اجتماعی دانش گاہ(پارلیمنٹ) کی بات کریں تو گزشتہ چند دنوں سے جو کچھ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں ہوا ہے شاید اس کے لیئے عوام نے ووٹ کی طاقت نہیں دی تھی ،دلیل سے بات گالم گلوچ تک جاپہنچی ،چیخے چلانے سے شروع ہونے والے معاملات کتابی گولہ باری پر جا رکے ،اکتفا صرف یہاں پہ نہیں ہوا بلکہ جس اسپیکر چیئر کے تقدس کے تحفظ کا حلف لیا گیا تھا اسی اسپیکر کو ایوان سے عجلت میں نکلنا پڑا ۔اپنے لیڈروں کی اندھی تقلید نے ہمیں معاشرتی اقدار سے ہی دور کر دیا ورنہ ماضی کی کونسی اسمبلی ہے جس میں احتجاج نہ ہوا ہے تاہم یہ الگ بات ہے کہ اب اس پائے کے پارلیمنٹرین نے جنم لینا ہی چھوڑ دیا ہے                                                            ماضی کی اسمبلیوں میں ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں کہ اپنے سخت سیاسی مخالفین کو بھی “آپ” جناب کہہ کے مخاطب کیا جاتا تھا  سخت سے سخت بات کہنے میں شاعری کا لبادہ اوڑھ لیا جاتا تھا  البتہ اب نیا زمانہ ہے ،نئی سیاست ہے جو بات کہنی ہو وہ ڈھکے چپھے الفاظ میں کہی نہیں جاتی بلکہ سیدھی منہ پر ماری جاتی ہے  جس کا برملا اظہار سنیئر پارلیمنٹرین جناب ریاض پیرزادہ نے فلور آف دی ہاوس اپنی تقریر میں بھی کر دیا جبکہ اس کے ساتھ حکومتی رکن شندانہ گلزار نے پارلیمان میں گزشتہ کچھ دنوں سے مدارس میں زیادتی کی زینت بننے والی خبروں کے مرکزی کردار مفتی عزیز سمیت متعدد کی تصاویر دکھا کے نئی روایت کو قائم کیا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ جس اجتماعی دانش گاہ نے قوم کی راہنمائی کرنی ہے اسی میں قوم کو نئی راہ دکھائی جا رہی ہے جو عدم برداشت کے راستہ ہے ۔ایوان میں جس طرح قائد ایوان،قائد حزب اختلاف ،پارٹیز کی مرکزی لیڈر شپ کی کردار کشی کی جا رہی ہے یہ ملکی سیاست میں ایک نئے ٹکراو کو جنم دیگی اور یہ اس حلف کی پاسداری نہیں بلکہ خلاف ورزی ہے ۔ملک اسی وقت بلندی کی جانب جائے گا جس روز ہم اپنے گندے کپڑے چوک چوراہوں میں دھونا بند کردینگے۔سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر لٹکی شلواروں نے اگر پوری دنیا میں ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا تو ایوان کے اندر واشگاف گالیاں بھی ماتھے کو جھومر نہیں بدنماء دھبہ قرار پائینگی۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں