شوگرملوں نےملک میں چینی کی قلت کی خبروں کو مستردکردیا،3ماہ کاسٹاک موجودہے

اسلام آباد(نیوزٹویو) پاکستان شوگرملزایسوسی ایشن نے چینی کی دستیابی سے متعلق اعداد وشمارجاری کردئیے ہیں اورملک میں چینی کی قلت کی خبروں پرحیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس وقت ملک میں چینی کاوافرذخیرہ موجود ہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا چینی کی قیمتوں میں اضافے کو اس طرح اٹھا رہا ہے جیسے ملک میں چینی کی قلت ہے اور یہ کمی اس لیے ہے کہ سابقہ حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت دی تھی۔ یہ تاثر درست نہیں اور جو حقائق پیش کیے جا رہے ہیں وہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔

پاکستان شوگر ملز ایسوایشن (پنجاب زون) کے ترجمان نے کہا کہ اعداد و شمار کے معروضی تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ شوگر سیزن 22-2021 کے اختتام پر پاکستان کے پاس تقریباً 10 لاکھ ٹن چینی کا اضافی ذخیرہ تھا۔ اس بھاری سرپلس کی وجہ سے حکومت نے 2.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی اور اس کے بعد مزید 2.5 لاکھ ٹن چینی  برآمد کی اجازت دینی تھی۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا تھا کہ شوگر سیزن 2022-23 چینی کی پیداوار کے لیے اچھا رہے گا۔ لیکن شوگر سیزن کے دوران یہ محسوس ہوا کہ فصل کی پیداوار اندازوں اور توقعات کے مطابق نہیں ہے، اس لیے حکومت کی جانب سے چینی کی مزید برآمد  روک دی گئی

ترجمان کا کہنا ہے کہ شوگر سیزن 23-2022 کے آغاز میں پاکستان کے پاس 8.15 ملین ٹن کا ذخیرہ تھا جس میں گزشتہ سال کا کیری اوور اسٹاک بھی شامل تھا، جو پورے سال کے لیے ایک تسلی بخش اسٹاک پوزیشن تھی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور دیگر متعلقہ سرکاری ادارے اب بھی یہ موقف رکھتے ہیں کہ ہماری ماہانہ کھپت 0.65 ملین ٹن ہے۔ نومبر 2022 سے جولائی 2023 کے دوران 9 ماہ کے لیے کھپت 5.85 ملین ٹن رہی۔ باقی تین ماہ کے لیے پاکستان کو 1.95 ملین ٹن کی ضرورت ہوگی، جب کہ پاکستان میں اسٹاک کی دستیابی 2.3 ملین ٹن ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں اس وقت چینی کی قلت کا تاثر سمجھ سے بالاتر ہے۔

ترجمان نے کہا کہ جہاں تک چینی کی قیمت کا تعلق ہے، چینی کی بین الاقوامی مارکیٹ انتہائی اتار چڑھاؤ کا شکار ہے اور250  روپے فی کلو تک ہے۔ اسی لیے پاکستان کی سرحدوں سے بہت زیادہ چینی نکل رہی ہے۔ پاکستانی چینی اپنی اعلیٰ کوالٹی اور کم مقامی قیمتوں کی وجہ سے بہت مقبول ہے اسی وجہ سے مغربی سرحدوں سے چینی کے اخراج کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ مقامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے کا دوسرا اہم جزو ڈالر کی غیر متوقع بلند شرح مبادلہ، پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، بینکوں کی انتہائی بلند شرح سود، اجرتوں میں اضافہ، دیگر تمام اشیاء کی مارکیٹ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور بجلی کی قیمتوں کا آسمان کو چھونا ہے۔ ان تمام منفی حالات سے چینی کی قیمتوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ آئندہ شوگر سیزن  24-2023 ٍ کے لیے تخمینے ظاہر کرتے ہیں کہ پورے پاکستان میں گنے کے رقبے میں کمی کی وجہ سے چینی کی پیداوار بمقابلہ کھپت میں کمی کا امکان ہے۔ اس کے لیے حکومت کو وقت سے پہلے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ چینی کی اسمگلنگ سے بچنے کے لیے اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے تا کہ چینی باہر نہ جا سکے۔ ترجمان نے مشورہ دیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس طریقے سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ چینی کےقانونی پابندیوں میں جکڑے شعبے کو مارکیٹ فورسز پرقائم شعبے جیسے چاول، مکئی اور دیگر فصلوں کی طرز  پر کام کرنے کے لیے آزاد کیا جائے تاکہ اسے بین الاقوامی سطح پر مسابقتی بنایا جا سکے۔ اس بات کا بھی ادراک نہیں کیا جا رہا کہ ہماری کل چینی کا 70 فیصد تجارتی شعبہ استعمال کرتا ہے۔ صرف 30 فیصد چینی گھریلو صارفین استعمال کرتے ہیں جس میں سے 15فیصد معاشرے کا غریب طبقہ ہے۔ حکومت کی تشویش معاشرے کے اُس طبقے کے متعلق ہے جن کیلئے پہلے  ہی یوٹیلٹی اسٹورز جیسے خصوصی رعایتی انتظامات موجود ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے اس طرح کے مزید انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔ پورے شوگر سیکٹر کو اوور ریگولیشن  کے ذریعے  یرغمال بنانے کی عدالتیں وقتاً فوقتاً حوصلہ شکنی کرتی رہی ہیں، ایسا حکومتی طرزِعمل نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس شعبے کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر یہ اوور ریگولیشن برقرار رہی تو اس کے نتیجے میں گنے کی کاشت میں مزید کمی آئے گی اور حکومت کو چینی کی ملکی پیداوار کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں