مصطفیٰ نواز کھوکھر نےپیپلزپارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا

اسلام آباد(نیوزٹویو) پاکستان پیپلزپارٹی کی  سینٹ کی نشست سے حال ہی میں استعفیٰ دینے والے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے پاکستان پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہےاور کہا ہےجس دن استعفیٰ لیا گیا تھا اسکے بعد کچھ نہیں بچا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی مستقبل کا فیصلہ آئندہ کچھ عرصے میں ساتھیوں سے مشاورت کے بعد کروں گا نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئےسابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ پی پی پی میں اتنا ہوں جتنا مفتاح اسمٰعیل مسلم لیگ (ن) میں ہیں، پیپلز پارٹی کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا، بلاول بھٹو زرداری کا ترجمان رہا اور سندھ سے سینیٹر بھی رہا۔

انہوں نے کہا کہ مزید جاری رکھنا اپنا ضمیر کمپرومائز کرنے کے مترادف ہے، میں اب پارٹی کا حصہ نہیں رہا، پارٹی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ میزبان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت ہی جواب دے سکتی ہے کہ سینیٹ رکنیت سے استعفیٰ کیوں لیا گیا تھا۔ پارٹی کے اندر چند لوگ شاید بلاول بھٹو سے سوال کرتے ہوں کہ اتنی خاص پوزیشن پراتنی جلدی کیسے اور وقت کے ساتھ انہوں نے سمجھا ہو کہ استعفیٰ لینا درست ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے، پہلے حدود عبور نہ کرنے پر بات کی جاتی تھی اور اب تو سیاسی جماعتوں نے بھی وہی فیصلے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت جانے کی وجہ ان کے کچھ فیصلے بھی تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے برعکس تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک سیاسی جماعتیں سیاست میں بہتری اور پاکستان کے مفاد میں بات کرنے کے لیے اپنے اندر کھل کر سیاسی معاملات پر اظہار کرنے کی جگہ نہیں دیں گی اور وہاں اس ماحول میں حبس کا ماحول ہوگا تو وہ سیاسی تنظیمیں کم بادہشاہت زیادہ لگیں گی۔ سابق سینیٹر نے کہا کہ موجودہ حکومت ’ہائبرڈ 2.0‘ ہے جیسا کہ شہباز شریف نے آتے ہی وہ فیصلے کیے جو شاید عمران خان نے بھی نہیں کیے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ہم عمران خان کی سیاست، طریقہ کار پر تنقید کرتے تھے اور اس میں جو کچھ ہوا اس ماحول سے گزر کر سوچنا چاہیے تھا کہ ہمیں عمران کو جمہوری انداز میں جواب دینا تھا، مگر ملک کو 90 کی دہائی میں دھکیل چکے ہیں اور اب عمران خان آیا تو وہ بھی بدلہ لینے کی سوچ رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی ماحول کی تلخی میں ہم ترجمان بنے بیٹھے ہوتے ہیں حالانکہ ان سے حکومت کا تعلق نہیں۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ ہم توقع کر رہے تھے کہ عاصم منیر آرمی چیف بنے تو وہ چیزیں درست کریں گے کیونکہ پچھلے چند ماہ میں فوج کی مداخلت کی وجہ سے اس کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اب اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے ہٹ کر راستہ دینا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں سیاسی جماعتوں کا خیال تبدیل ہوا ہے جیسا کہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے انٹرویوز موجود ہیں جو کہتے تھے کہ قبل از وقت انتخابات ہوں، اصلاحات ہوں، نیب ترامیم ہوں مگر اب حکومت میں آنے کے بعد خیالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب المیہ یہ ہوا ہے کہ حکومت نے جو وقت گزارا ہے اس سے عمران خان کی تمام کارکردگی پس پشت چلی گئی ہے اور اب کوئی سوال نہیں کر رہا کہ عمران خان نے نوکریاں اور گھر دینے کا کہا تھا، مگر اس کے برعکس سارا ملبہ ہم نے خود پر لیا جبکہ ضمنی انتخابات میں لوگوں نے عمران کا ساتھ دیا۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ سیاست دانوں کو خوف کیوں ہے کہ عوام کے اندر نہ جائیں، کیا ان کو خوف ہے کہ عمران خان الیکشن جیت جائیں گے۔ سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے نئے انتخابات کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ ملکی معشیت اس وقت مستحکم ہو سکتی ہے جب حکومت 5 سال کے لیے ہو، جس میں وہ مشکل فیصلے بھی کرے لیکن موجودہ حکومت وہ فیصلے نہیں کر رہی کیونکہ اس کو علم ہے کہ آگے انتخابات آنے والے ہیں۔ اگلے انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ ہے کیونکہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی اور یہ بھی درست ہے کہ اتنا عرصہ پیپلز پارٹی نے برداشت کیا، اور کوئی برداشت نہیں کرتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں