معاشرے کو کرپشن اور جنسی جرائم کو ناقابل قبول بنانا ہوگا،وزیراعظم عمران خان

اسلام آباد(نیوزٹویو)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرپشن اور جنسی جرائم کوختم کرنے کے لیے معاشرے کو انہیں ناقابل قبول بنا نا ہوگا معاشرے میں جنسی جرائم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے زیادتی کے واقعات کے خلاف معاشرے کو لڑنا ہوگا۔ زیادہ تر اسلامی ممالک کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے ان خیالا ت کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے عالمی اسکالرز کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کیاانہوں نے کہا کہ بدعنوان قیادت ہی کرپشن کو قابل قبول بناتی ہے اس لیے ہمیں کرپشن کو بھی ناقابل قبول بنانا ہو گا۔ موبائل فون کی وجہ سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے کیونکہ موبائل فون سے معلوماتی مواد کے ساتھ فحش مواد بھی ملتے ہیں۔ زیادتی کے واقعات خواتین کے ساتھ بچوں کے ساتھ بھی ہو رہے ہیں اور بہت سارے معاشروں کو اس صورت حال کا سامنا ہے یہ مکالمہ بروز ہفتہ (یکم  جنوری) اور اتوار (2 جنوری) کو دو حصوں میں نشر کیا گیا وزیراعظم عمران خان نے دین اسلام اور حضرت محمد ﷺ کی سیرت کے بارے میں نئی نسل میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر کے نامور علمائے کرام کے ساتھ ایک ورچوئل مکالمے کا انعقاد کیا۔رحمت اللعالمین اتھارٹی کے بینر تلے منعقد ہونے والے سیشن کا موضوع ’اسلام، معاشرہ اور اخلاقی احیا‘ تھا، جس میں امریکہ، برطانیہ، انڈونیشیا اور یو اے ای کے 7 اسکالرز نے حصہ لیا۔وزیراعظم عمران خان نے مختلف ممالک کے اسکالرز سے کچھ سوالات کیے جن کے علمائے کرام نے  جواب دیے۔مکالمے کے دوسرے حصے میں وزیراعظم نے اسکالرز سے سوال کیا کہ مدینہ کے معاشرے میں ہونے والی تبدیلی کے تجربے  کو سامنے رکھتے ہوئے آپ مسلمان نوجوانوں کے لیے کیا پیغام دیں گے؟جارجیا کے ڈاکٹر حسین نصر نے کہا کہ ہم اپنے نوجوانوں کے بارے مں فکرمند ہیں جو آج بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں، ایک طرف آپ کو جدیدیت کا حل ڈھونڈنا ہے جس کا طویل مدت سے دنیا پر غلبہ ہے اور اس کے ساتھ وہ روایات جو جدیدیت کے ان رجحانات کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں، اس کے ساتھ قدرتی ماحول کی تباہی، نوجوانوں میں ان سب کے بارے میں ہم سے زیادہ حساسیت ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ایک 10 سال کے بچے کو یہ یقین نہیں ہے کہ وہ 16 سال کی عمر تک زندہ رہے گا یا نہیں، دنیا کیسے ہوگی اور اس کے لینے کے لیے آکسیجن ہوگی یا نہیں۔ڈاکٹر حسین نصر نے کہا کی انسانی وجود کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، اولین کام جو ہم اپنے نوجوانوں کے لیے کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کے لیے اس خوفناک دنیا کا مثبت تجزیہ کریں، انہوں نے کہا کہ دنیا ایک فریب ہے اور روح ایک حقیقت ہے۔انسانوں اور زندگی کے روحانی پہلو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر ایمان، ایک طرف نوجوانوں کو روایتی مذہبی اقدار کی جانب مائل کرنا مشکل ہے اور دوسری جانب ایک آسان بات بھی ہے کیونکہ دنیا ایک غیر یقینی اور خوفناک مقام بن گئی ہے جبکہ ماضی بعید میں ایسا نہیں تھا اس کی کشش میں بہت زیادہ کمی آگئی ہےیہی وجہ ہے کہ آج بہت سے نوجوانوں کو کچھ سجھائی نہیں دیتا اور اگر وہ مذہب کی طرف نہ بھی آئیں تو ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔

ڈاکٹر حسین نصر نے کہا کہ ہمارا کام آج اسلامی تعلیمات کو اس انداز میں پیش کرنا ہے کہ وہ معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ معقول بھی نظر آئیں، انہوں نے کہا کہ  ہمیں اسلام کو اسی رسی کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے جو طوفان میں حفاظت کے کام آتی ہے لیکن ایک معتبر انداز میں۔انہوں نے کہا کہ آج کے فیشن جو ایک دن کی طرح آتے ہیں اور بدل جاتے ہیں اور جن سے بہت سے نوجوان متاثر ہوتے ہیں وہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں صحیح معنوں میں انہیں تربیت دینی ہوگی ایک یہ آج کے رجحانات کی اصل حقیقت کیا ہے جو نوجوانوں کے لیے پرکشش ہیں، یہ ہماری روح اور ہمارے بچوں کے لیے کتنے پُرفریب ہیں دوسری جانب اسلام پر عمل پیرا ہونے کی وہ حقیقت ہے جو ہمیشہ سے موجود ہے جس کا پیغمبرﷺ نے صحیح معنوں میں عملی نمونہ پیش کیا۔ڈاکٹر حسین نصر نے کہا کہ ہمیں گفتگو سے زیادہ عمل اور اپنی موجودگی کی حقیقت جاننے کی ضرورت ہے، ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جنہیں ماڈل کے طور پر پیش کیا  جاسکے، کھلاڑیوں سے لے کر دانشوروں تک، ادیبوں سے لے کر موجدین تک ہمیں ہر شعبے میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو مثال بن سکیں، جو مسلمانوں کو اسلام اور حضرت محمد ﷺ کے لیے وقف اداروں کی جانب راغب کرسکیں اور ساتھ ہی وہ اپنے معاشرے اور فطرت سے محبت کریں یہ معاملہ نوجوانوں کی زندگیوں کے حوالے سے بہت اہم ہے، ہم کیوں ہمیشہ اس بارے میں بات کرتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل کرنے کا تصور ہونا چاہیے، اللہ اپنی مخلوق کا تحفظ کرے گا‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں