پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ جمہوری نظام کےلیےتباہ کن ہے،سپریم کورٹ

اسلام آباد(نیوزٹویو) سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس کے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ رکن اسمبلی کا پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنا پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے تباہ کن ہےمنحرف رکن کا پارٹی ہدایات کے خلاف ڈالا گیا ووٹ گنتی میں شمار نہیں ہوگا جبکہ منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرے گی سپریم کورٹ نے منحرف اراکین پارلیمنٹ کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 63-اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس اور دیگر درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جس سے جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس مظہرعالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے آئینی درخواستوں پر سماعت کی تھی اور 17 مئی 2022 کو 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے مختصر فیصلہ سنادیا تھا

جسٹس منیب اختر کا تحریر کردہ اکثریتی فیصلہ 95 صفحات پر مشتمل ہے، جس سے امریکا کی تاریخ کے مشہور چیف جسٹس مارشل کے قول سے کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا کام صرف آئین کی تشریح کرنا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ منحرف رکن کا پارٹی ہدایات کے خلاف ڈالا گیا ووٹ گنتی میں شمار نہیں ہوگا جبکہ منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ آئین میں پارٹی ہدایات کے لیے پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہے اور پارٹی ہیڈ کا ذکر نہیں۔ جبکہ اراکین پارلیمان کے اختلاف رائے کے حوالے سے فیصلے میں کہا گیا کہ اراکینِ پارلیمنٹ کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے مگر اس آزادی کا استعمال آرٹیکل 63 اے کی روشنی میں ووٹ ڈالتے ہوئے نہیں ہو سکتا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے پر اٹھائے گئے اعتراضات مسترد کرتے ہیں، ان اعتراضات کا جواب وکلا محاذ کیس میں سپریم کورٹ پہلے بھی دے چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ارکان اسمبلی کے اظہار رائے کے حق کو وکلا محاذ کیس میں بھی تحفظ دیا گیا ہے لیکن جب معاملہ ووٹ ڈالنے کا آئے گا تو پھر صورت حال مختلف ہوگی اور اس وقت آرٹیکل 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔

جسٹس منیب اختر نے فیصلے میں تحریر کیا کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پارلیمانی پارٹی میں اعتماد کھو بیٹھے تو ان کو عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ رکن اسمبلی کا پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنا پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے تباہ کن ہے، ارکان اسمبلی ووٹ کے معاملے پر پارٹی کے اندر بحث، اتفاق یا عدم اتفاق کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ یہ دلیل دی گئی کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے سے پارلیمانی پارٹی میں آمریت کو فروغ ملے گا، آمریت کو فروغ ملنے کی دلیل سے ہم متفق نہیں ہیں۔ جسٹس منیب اختر کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ڈالیا گیا ووٹ شمار کرنا جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے اراکین جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال مندوخیل نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا اور اس حوالے سے وجوہات بھی جاری کردی تھیں۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ منحرف رکن پارلیمان کا ووٹ گنتی میں شمار ہوگا۔

مختصر فیصلے میں چیف جسٹس عمر عطابندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے اور ان کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے 20 مئی کو پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے لیے ووٹ دینے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 25 اراکین کو ڈی سیٹ کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا تھا اور تاحیات نااہل کرنے کے بجائے ڈی سیٹ کردیا تھا۔الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی کے خالی حلقوں میں 17 جولائی کو ضمنی انتخابات ہوئے تھے اور ان انتخابات میں پی ٹی آئی نے 15 نشستیں حاصل کرکے پنجاب میں دوبارہ اپنی حکومت بنالی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں