وزیراعظم نے کشتی حادثے کےذمہ داران کوسخت سزاؤں کےلیے قانون سازی کی ہدایت کردی

اسلام آباد(نیوزٹویو) وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان کے قریب بحیرہ عرب میں کشتی الٹنے کےحادثہ کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی کو کارروائی مکمل کرکے واقعہ کی رپورٹ فوری پیش کرنے اور ذمہ داران کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا حکم دیا ہے جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے وزیراعظم کے سخت احکامات پر عمل کرتے ہوئے انسانی سمگلرز کے خلاف کارروائیاں تیز کردی ہیں اورمزید 2 مبینہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر لیا ہے۔

وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیر اعظم کی زیرِ صدارت یونان کے قریب کشتی الٹنے کے واقعہ پر آج اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزرا رانا ثنااللہ، مریم اورنگزیب، معاون خصوصی طارق فاطمی، ڈی جی ایف آئی اے، چیف سیکریٹری آزاد کشمیر و متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں وزیر اعظم کو یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔وزیرِ اعظم نے استفسار کیا کہ انسانی اسمگلروں کی کارروائیاں بروقت کیوں نہ روکی گئیں؟ وزیرِ اعظم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ متاثرہ لوگوں کا جن اضلاع سے تعلق ہے وہاں کی انتظامیہ نے ملوث اسمگلروں اور ایجنٹوں کی کارروائیوں کا بروقت نوٹس کیونکر نہ لیا؟

انہوں نے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو تحقیقات کی مکمل نگرانی کرنے اور ذمہ داران کو سخت سزا دلوانے کے حوالے سے ضروری قانون سازی کے لیے تجاویز مرتب کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے 12 جون کو کشتی کی نشاندہی کی جس میں ایک اندازے کے مطابق 700 کے قریب لوگ سوار تھے۔ کشتی مصری شخص کی ملکیت تھی جس میں زیادہ تر سواروں کا تعلق شام، لیبیا اور پاکستان سے تھا، کشتی میں سوار لوگوں میں سے 102 لوگوں کو زندہ ریسکیو کیا جاچکا ہے جن میں سے 15 کا تعلق پاکستان سے ہے۔کشتی الٹنے کے بعد اس وقت تک مجموعی طور پر 15 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں اس واقعے کا مرکزی ملزم بھی شامل ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ انسانی اسمگلنگ میں مختلف ممالک میں موجود ایک منظم نیٹ ورک ملوث ہے۔

وزیرِ اعظم نے اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کو جلد مکمل کرنے اور ایف آئی اے کو اس کی روک تھام کے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کمشنر گوجرانوالہ کو بھی ضلع میں ایسے ایجنٹس کی نشاندہی کرکے انہیں جلد قانون کی گرفت میں لانے کی ہدایت کی۔

دوسری جانب ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل گوجرانوالہ نے کارروائی کرتے ہوئے حادثہ میں ملوث 2 مبینہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر لیا۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ملزمان نے لیبیا کشتی حادثے کے متاثرہ کو یورپ بھجوانے کے لیے 25 لاکھ روپے ہتھیائے، متاثرہ عمیر یحیٰ لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے کشتی حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔ گرفتار انسانی اسمگلرز میں محسن جاوید اور شرافت علی شامل ہیں جن کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ ملزمان کو گوجرانوالہ سے گرفتار کیا گیا، ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا، مزید تفتیش جاری ہے۔

ادھر ایف آئی اے نے یونان میں تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حادثے کے متاثرین کی شناخت کے لیے ڈوبنے والی کشتی پر سوار افراد کے اہل خانہ کو طلب کرکے 98 لاپتا نوجوانوں کے خاندانوں کے ڈی این اے سیمپلز حاصل کر لیے۔ حکام نے متاثرین کے والدین اور بچوں سے ڈی این اے کے نمونے دینے کی درخواست کی تھی تاکہ سمندر سے برآمد ہونے والی لاشوں کی شناخت کی جاسکے، اب تک 81 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 104 کو بچا لیا گیا ہے۔ایف آئی اے گجرات سرکل میں 52 متاثرین کے لواحقین کی جانب سے سیمپل جمع کروائے گئے جب کہ گوجرانوالہ سرکل میں 46 متاثرہ خاندانوں کی جانب سے ڈی این اے سیمپلز دیے گئے۔

گزشتہ روز متوفیوں کے قریبی رشتہ دار گجرات میں ایف آئی اے کے دفتر پہنچے، پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی ٹیم نے ان کے نمونے اکٹھے کر لیے، ان کی رپورٹس یونان میں پاکستانی سفارتخانے کو بھیجی جائیں گی۔

دوسری جانب غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے رپورٹ کیا کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے کشتی ڈوبنے کے واقعے میں ملوث 9 افراد پر فرد جرم عائد کی اور کم از کم 82 افراد کو حراست میں لیا، جبکہ یورپی یونین نے تارکین وطن کے حوالے سے مختص اپنے فنڈز میں مزید اضافہ کرنے اور اقدامات کا عزم کیا۔

مشتبہ تمام اسمگلرز کا تعلق مصر سے ہے اور ان کی عمریں 20 سے 40 سال کے درمیان ہیں، ملزمان کو منگل کے روز پراسیکیوٹر کے سامنے پیش کیا گیا جہاں ان پر قتل عام، مجرمانہ تنظیم بنانے، تارکین وطن کی اسمگلنگ اور کشتی ڈوبنے کے واقعے میں ملوث ہونے کے الزامات شامل تھے۔

سرکاری نشریاتی ادارے ’ای آر ٹی‘ کے مطابق تمام ملزمان نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کسی بھی غلط کام میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔

بحیرہ روم میں ڈوبنے والی کشتی مصر سے روانہ ہوئی، پھر 10 جون کو لیبیا کے ساحلی شہر توبروک میں مسافروں کو اٹھا کر اٹلی کے لیے روانہ ہوئی، یونانی حکام نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والوں نے دوران تفتیش انہیں بتایا کہ انہوں نے سفر کے لیے فی کس 45 ہزار ڈالر ادا کیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں