وزیراعظم کا 300یونٹ والے بجلی صارفین کےفیول ایڈجسٹمنٹ چارجزختم،سیلاب متاثرین کے بل معاف کرنے کا اعلان

اسلام آباد(نیوزٹویو) وزیر اعظم شہباز شریف نے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سے استثنیٰ دینے کا اعلان کیا ہے اور وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کو سیلاب متاثرین کےبجلی کے بل معاف کرنے کی ہدایت کی ہےاسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ چارج سے استثنیٰ ملے گا اس سے مراد ہے 75 فیصد صارفین کو مکمل طور پر استثنیٰ مل گیا۔ڈرائیوروں کے بل بھی 18 اور20 ہزار آگئے وہ کہاں سے ادا کرتے، وہ سڑکوں پر آتے تو کیا ہوتا اور سڑکوں پر آنا ان کا بجا تھا۔جب ہم حکومت میں آئے تو شروع میں پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا، یہ تکلیف دہ حقیقت ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارج (ایف اے سی) کی وجہ سے عام آدمی کے طوطے اڑ گئے اور میں نے اس پر لڑائی کی اور کہا کہ کہ ہمیں یہ کرنا ہے تو جاکر کہیں اور بیٹھ جاتے ہیں لیکن عرق ریزی کی اور کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 200 یونٹ والوں کو استثنیٰ دیا، جو 21 ارب روپے تھی، یہ صرف 48 یا 52 فیصد صارفین تھے تاہم میں نے کہا کہ 300 یونٹ تک استثنیٰ دیں گے تو بات بنے گی۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں حکومت سنبھالے 4 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور یہ ایک مخلوط حکومت ہے جو پاکستان بھر کی نمائندہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جب ہم یہ ذمہ داری سنبھالی اور قائد نواز شریف اور دیگر اتحادی جماعتوں کے زعما نے مجھے اس مقصد کے لیے منتخب کیا تو مجھے صورت حال کی ترشی، سختی اور معاشی تباہی کا اندازہ تھا اور ہم نے ذمہ داری قبول کی کہ ہم مل کر پاکستان کو اس معاشی تباہی سے بچانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔اس حکومت نے تمام جماعتوں کا حصہ شامل ہے اور ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا مگر سر منڈھاتے اولے پڑے، دنیا میں تیل اور پیٹرول کی قیمتیں اس وقت آسمان سے باتیں کر رہی تھیں، 120 ڈالر فی بیرل سے بھی بڑھ گئی تھیں، جس کی مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ جانے والی حکومت نے ہمارے لیے ایک گڑھا کھود دیا تھا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری، تیل کی قیمت دنیا میں آسمان سے باتیں کر رہی ہو لیکن پاکستان میں نالائق حکومت نے اپنے پونے چار سال میں رتی برابر بھی عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش نہیں کی۔لیکن اس حکومت نے جانے سے پہلے جب ان کا شک یقین میں بدل گیا کہ اب ان کی چھٹی ہوجائے گی تو وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ایک افسر نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ آپ فوراً تیل کی قیمتیں کم کردیں۔

وزیر اعظم نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مشورہ ملا تو اس نے فوراً پیغام رساں کے ذریعے اس وقت کے وزیر خزانہ کو پیغام بھیجا کہ ہمیں قیمتیں کم کرنی چاہیے لیکن وزیرخزانہ نے منع کیا جبکہ 20 ہزار ارب کے قرضے لیے گئے جو پاکستان کی تاریخ کا 80 فیصد ہے۔تیل کی قیمت یکایک کم کرکے نہ صرف یہ گڑھا کھودا بلکہ پاکستان کے عوام کو معاشی تباہی کے دہانے دھکیل دیا، آئی ایم ایف کا معاہدہ انہوں نے کیا لیکن اس کا پارہ پارہ کیا اور جب ہم نے حکومت سنبھالی تو مشکلات ہی مشکلات تھیں۔آئی ایم ایف کا معاہدہ رک چکا تھا اور ہمیں بتایا کہ شرطیں پوری کریں اور وہ ٹیکسز لگائیں جو پچھلی حکومت نے ہم سے معاہدہ کیا تھا، پھر ہم آپ سے بات کریں گے ورنہ بات نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں چینی 52 روپے کلو تھی اور پھر وقت آیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں چینی 100 روپے عبور کر گئی، انہوں نے منصوبہ بنایا اور پہلے چینی برآمد کی کہ ہمارے پاس چینی کے وافر ذخائر ہیں اور ساتھ ہی سبسڈی دی حالانکہ سبسڈی دینے کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ روپیہ اپنی قدر کھو رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک وقت آگیا کہ جب ڈالر کے مقابلے میں روپیہ نیچے جارہا تھا تو 100 روپے کے مقابلے میں 120 روپے مل رہے تھے، اس منافع کے ساتھ سبسڈی بھی مل رہی تھی۔انہوں نے پاکستان کے اربوں روپے سبسڈی کے نام پر ہڑپ کیے اور دوسری طرف ڈالر کی قیمت بڑھنے سے منافع بھی ان کی جیبوں میں گیا۔اسی طرح گندم بھی برآمد کی پھر درآمد کرکے تباہی پھیلا دی۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ کے زمانے میں مارکیٹ میں گیس 4 ڈالر فی یونٹ تھی، جس سے ہمارے بجلی کے پلانٹ اور کارخانے چلتے ہیں لیکن انہوں نے نہیں خریدی۔ نواز شریف نے اپنے دور میں قطر سے حکومت سے حکومت کا 13 فیصد پر معاہدہ کیا اور بہت اچھے داموں اور شرائط پر طویل مدتی معاہدہ ہوا-2021 میں دوبارہ معاہدہ ہوا جو 10 سال کا معاہدہ تھا اور قطر نے 10 فیصد پر گیس دی، اس کے بعد جب کووڈ آیا تو گیس ریوڑیوں کے بھاؤ بک رہی تھی لیکن انہوں نے نہیں خریدی۔پھر تیل مافیا سرگرم ہوگیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں مہنگی ترین بجلی بننی شروع ہوئی، پھر یوکرین کی جنگ چھڑی تو روس نے گیس بند کردی اور پورا یورپ جہاں سے گیس مل سکتی تھی پل پڑا۔ہمیں مہنگا ترین تیل خریدنا پڑا، جس سے بجلی بنا کر غریب آدمی کو سبسڈی دے کر بجلی مہیا کی، جس ملک کی حالت یہ ہو اس کے ساتھ پونے 4 سال جو تماشا اور کھلواڑ کیا گیا کبھی نہیں دیکھا۔

سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کا تماشا لگایا گیا جس نے پاکستانی معیشت کا کچومر نکالا اور دن رات قوم کے ساتھ جھوٹ بولا، چور اور ڈاکو کا بیانہ دن رات ہر جگہ بیان کیا۔لوگوں کی دال روٹی یا روزگار کا معاملہ ہو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بھاشن دینے کے سوا اس نے کچھ نہیں کیا، اس کے ساتھ ساتھ باقی معاملات جو اب سامنے آرہے ہیں جو بھی سب کے سامنے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ جب آئی ایم ایف کا معاہدہ ہوا تو وزیر خزانہ نے بتایا کہ پروگرام ہوگیا ہے تو میں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے پاکستان دیوالیہ ہونے بچا، لیکن مبارک باد دینے کا موقع نہیں ہے کیونکہ ہم قرض لے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قرض پر کس بات کی مبارک باد اور کس بات کی خوشی تاہم اللہ کا شکر ہے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچا جو عمران خان چاہتا تھا اور کہتا تھا پاکستان، سری لنکا بن جائے گا۔عمران خان چاہتا تھا کہ پاکستان سری لنکا بن جائے، اگر یہ ان کی خواہش نہ ہو تو عمران خان کے حکم پر ان کا سابق وزیر خزانہ فون کرتا کہ وفاق کو خط لکھو کہ ہم سرپلس نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک یہ شرط تھی کہ صوبے وفاق کو خط لکھیں کہ ہم سال کے آخر میں بجٹ سرپلس میں ہوگا اور جب آئی ایم بورڈ کے اجلاس کا وقت قریب آرہا تھا تو انہوں نے خیبرپختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو خط لکھنے کا کہا۔ کے پی کا خط چلا گیا لیکن پنجاب کا خط کہیں اٹک گیا اور اس کی آواز سن لی، اس کے بعد کسی قسم کا شک ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسیحا کہتا تھا اور پاکستان میں 90 دن میں کرپشن ختم کروں گا اور 300 ارب ڈالر واپس لاؤں گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے سخت فیصلے ضرور کیے ہیں لیکن کم ازکم اس کا چہرہ پہچان لیں جب ہماری پارٹی اپوزیشن میں تھی تو ہمارے اراکین کے ساتھ کیسا سلوک کیا، کال کوٹھری تک پہنچانے کے لیے آخری حد تک گیا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف، پارٹی ارکان اور زعما کو مبارک ہو جنہوں نے بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا، ہم نے کبھی رونا دھونا نہیں کیا، یہاں تک کہ بیٹیوں اور بہنوں کو نہیں چھوڑا، مریم نواز کے ساتھ ظلم کیا، زرداری صاحب کی بہن کے ساتھ ظلم کیا۔ جیلوں کے اندر ان کے ساتھ سختی کی لیکن اللہ نے ہمت دی اور ہم نے وہ ظلم برداشت کیا لیکن آج فوج اور پاکستان کے اداروں کو تقسیم کی بات کی جاتی ہے تو قانون نوٹس لیتا ہے تو پھر وہ چہرہ اور زبان بھی دیکھا ہوگا۔کس طرح رعونت کے ساتھ مقدمے بنائے گئے اور آرٹیکل 6 تک کے لیے ایف آئی اے کو کہا گیا کہ شہباز شریف، خواجہ آصف، مریم نواز اور پرویز رشید کس کس کا نام لیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب کا قانون بدلا کہ ریٹائرڈ ججوں کو لے کر آؤ تاکہ ان کو سزائیں دلوائیں، جو حاضر جج ہیں ان کی کیا کمی تھی کہ آپ کو ریٹائرڈ ججوں کی ضرورت پڑ گئی۔یہ تکلیف دہ صورت حال تھی لیکن ہمیں اللہ نے حوصلہ دیا۔وزیر اعظم نے عمران خان پر الزامات عائد کیے کہ لاہور میں جاکر مریم نواز، خواجہ آصف اور رانا ثنااللہ کو تکلیف پہنچانے کے لیے ہدایات دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ اس سے بڑا جھوٹا، مکار اور فریبی اور دوغلا شاید ہی دنیا میں پیدا ہوا ہو، جو شخص خط لکھوا دے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہوجائے اور پاکستان دیوالیہ ہو کر اللہ نہ کرے سری لنکا بن جائے، تو اس سے بڑی ملک دشمنی کا ثبوت کیا ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک برادر ملک سے انہوں نے پیسے مانگے اور پیسے ملے تو اس شخص نے رعونت سے ٹھکرا دیا کہ آپ نے پیسے کم کردیے ہیں، ایک پیسے مانگنا اور اس پر اکڑنا اور پھر مجھ پر ایک جملے پر الزام لگتا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ جس طرح عمران خان نے پاکستان کو چلایا اور ایک ادارے نے اس کو ایسے پالا پوسا، جس کی مثال 75 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی اور آئندہ بھی نہیں ملے گی، جس حد تک اس کو سپورٹ کیا گیا اور اس کی نزاکتیں اور نخرے برداشت کیے گئے۔اب تو میں وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر دیکھ رہا ہوں کہ یہ آدمی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر جو فیصلے اور من مانی کرتا تھا۔توشہ خانے کے معاملات دیکھ رہے ہیں، اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے، پہلے جاکر گھڑیاں بیچ دیں، پیسے جیب میں ڈالے اور پھر بعد میں توشہ خانے میں دیے گئے، نوٹس نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے ملک کی تباہی کرکے ہمارے حوالے کرکے گیا۔

سیلاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پورے پاکستان میں طوفانی بارشیں ہوئی ہیں اور جو سیلاب آیا ہے، اپنی زندگی میں اس سے بڑا سیلاب نہیں دیکھا۔ سکھر، لاڑکانہ یا شکارپور ہر طرف پانی ہی پانی ہے، کھجوروں کے تیار درخت، گندم اور کپاس تباہ ہوگئی ہے، گھر تباہ ہوگئے، ایک ہزار سے زائد لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے، جن میں سے 300 بچے ہیں۔اسی طرح بلوچستان میں جعفر آباد، نصیر آباد، چمن، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، کچھی سمیت جہاں بھی جائیں پانی نے تباہی مچا دی ہے۔ خیبرپختونخوا بھی گیا وہاں کالام سے لے کر مدین اور بحرین سمیت مختلف علاقوں میں تباہی ہوئی ہے، وہاں دریا میں کھڑے ہوٹل بھی ختم ہوگئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہاں پر ایک ظلم ہوا ہے کہ دریا کے پیٹ میں ہوٹل بنادیا گیا، اس کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے، اگر طغیانی آئی تو کوئی عقل کا اندھا ہی کہے گا کہ یہ ہوٹل بچ پائے گا۔ پل اڑ گئے اور فصلیں تباہ ہوئی ہیں، اسی طرح ہزاروں سیاح وہاں رکے ہوئے ہیں، حکومت پاکستان، این ڈی ایم اے، صوبائی حکومتیں اور دیگر ادارے امدادی کام میں مصروف ہیں۔ جتنے بھی لوگ متاثر ہوئے ہیں وہ جہاں بھی ہوں، فی گھرانہ 25 ہزار روپے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دے رہے ہیں لیکن یہ رقم بڑھ جائے گی وفاق نے سندھ میں بحالی کے لیے 15 ارب، بلوچستان کے لیے 10 ارب، خیبر پختونخوا میں 10 ارب روپے کا اعلان کیا ہے۔جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے دیے جارہے ہیں لیکن یہ کوئی معاوضہ نہیں ہے کیونکہ ان کا پیارا چلا گیا، اسی طرح ہزاروں مکانات گر گئے ہیں، اس کے لیے ہمیں وسائل درکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب تو چھینک بھی مارنی پڑے تو آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑے گا، کتنے افسوس کی بات ہے، اپنے تئیں آزاد نہیں کہ فیصلہ کرسکیں، بجلی کے ایف اے سی پر بھی آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑا کہیں آئی ایم ایف ہمارا حقہ پانی بند نہ کرے۔ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہونا چاہیے، ریکوڈک پر پاکستان نے اربوں کا نقصان کیا، یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے، ہمارا قصور ہے کیونکہ ہم نے دن رات اپنے اوپر کلہاڑا چلایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریکوڈک بلوچستان کی ترقی میں انقلاب برپا کرسکتا تھا، پورے پاکستان کے لیے، اس کا حال دیکھ لیں، اربوں کھربوں وکلا کے ذریعے ضائع کرچکے ہیں۔ ہم نے آج حتمی فیصلہ کیا ہے اور 8 یا 10 تاریخ کو کانفرنس بلا رہا ہوں، جس میں 10 ہزار میگاواٹ شمسی توانائی اور ہوا سے چلنے والے منصوبے شروع کر رہے ہیں۔اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر پاگلوں کی طرح لگا رہوں گا، اس منصوبے کا بہترین مقام بلوچستان، سندھ اور بہاولپور ہے، اس کے علاوہ بھی کئی جگہیں ہیں جہاں ہم یہ منصوبہ تعمیر کریں گے۔اگر 7 ہزار بھی لگاتے ہیں تو اربوں روپے کا جو تیل درآمد کرتے ہیں وہ آدھا رہ جائے گا اور یہ پیسے بچیں گے تو مستحق افراد کے کام آئے گا۔شمسی توانائی سے تین پہلوؤں سے فائدہ ہوگا، ایک درآمد نہیں ہوگی، دوسرا سبسڈی نہیں دینی پڑے گی اور پھر شمسی توانائی پیدا کی جائے گی۔

شہباز شریف نے کہا کہ شوکت خانم اچھا منصوبہ ہے کسی پر کوئی اعتراض نہیں ہے نہ ہونا چاہیے، اس کی زمین بھی نواز شریف نے دی تھی، نواز شریف نے اپنے دور میں اپنے مرحوم والد کے بنائے ہسپتال کے لیے پیسہ نہ زکوٰۃ سے لیا اور نہ حکومتی خزانے سے لیا۔ووٹن کرکٹ کلب سے خیرات کے لیے اربوں روپے جمع ہوئے جو اپنی ذات اور سیاست کے لیے استعمال کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے آخر میں اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ شہریوں کی مدد کریں، بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں ہمارے بہن بھائی رہتے ہیں، ان کی ہر ممکن مدد کریں۔

انہوں نے کہا کہ چینی برآمد کرنے کا کہا گیا اسٹاک کا پتا لگایا تو نتائج اتنے اچھے نہیں تھے، اگر میں چینی کسی بھی وجہ سے برآمد کرتا تو چینی 20 روپے بڑھ جاتی۔انہوں نے کہا کہ پیاز کے لیے ترکیہ سے بات کی ہے، ایران، افغانستان سے بات کر رہے ہیں، کہیں سے ٹماٹر اور پیاز منگوائیں اور ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ اگر کوئی سختی آرہی ہے تو قوم سے معافی چاہتا ہوں لیکن جب بھی موقع آئے گا تو ایک، ایک پیسہ عوام کے قدموں میں نچھاور کریں گے۔

 انہوں نے پارٹی اراکین کو ہدایت کی کہ ٹیمیں بنائیں اور سامان لے کر جائیں، ٹیموں کی ڈیوٹیاں لگائیں کہ پاکستان میں کہاں کہاں کام کرنے کی ضرورت ہے اور میں نگرانی کروں گا۔وزیراعظم نے کہا کہ مفتاح اسمٰعیل سے گزارش کی ہے کہ جہاں پانی گیا ہے وہاں ان کو بجلی کے بل معاف کریں، صوبوں کا جو کام ہے وہ کریں گے لیکن ہم جو ریلیف دے سکتے ہیں وہ کریں۔ان کو احساس تو دلائیں اور اللہ ہمیں وسائل دے گا اور اگلے چند ہفتے ریلیف کا کام کرنے کا وعدہ کرکے اٹھیں اور یہ دن بدل جائیں گے اور پاکستان عظیم ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت نہیں ہے، اتحاد سے برکت ہے، تمام جماعتوں اور اداروں کو اکٹھا ہونا چاہیے، سیاست بعد میں ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں