پارلیمنٹ میں منی بجٹ پیش،جی ایس ٹی17سے18فیصد،گھی،تیل،کمپیوٹر سمیت ہرچیزمہنگی

اسلام آباد(نیوزٹویو) وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہو ئے منی بجٹ(ضمنی مالیاتی بل) قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کر دیا کھانے کاتیل,گھی،ڈبے کا دودھ،نوڈلز،صابن، واشنگ پاؤڈر،کولڈ ڈرنکس،جوسز،پیکنگ میں فروخت ہونے والی کھانے پینے کی تمام اشیئا بشمول مصالحہ جات سمیت ،موبائل فونز،کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،چاکلیٹس،میک اپ کا سامان,شیمپو,کھاد،سیمنٹ،سریا ہر چیزمہنگی ہو گئی ضمنی مالیاتی بل میں جنرل سیلز ٹیکس 17سے بڑھا کر 18فیصد کرنے سمینٹ کی بوری پر ایف ای ڈی ڈیڑھ روپےسے بڑھا کر 2روپےاورتمام لگژری آئٹمز پرجی ایس ٹی سترہ17فیصدسے بڑھا کر 25فیصد کرنے ،موبائل فونز،مشروبات اورسگریٹس پرفیڈرل ایکسائز ڈیوٹی  میں اضافے،شادی ہال اورہوٹلوں، کمرشل لان، مارکی اور کلب پر ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے پرکی تجاویز دی گئیں ہیں

 بدھ کو وفاقی وزیرخزا نہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ضمنی مالیاتی بل پیش کرتے ہو ئے مطالبہ کیا کہ موجودہ معاشی تنزلی کی وجوہات جاننے کے لیے ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جائے انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ صرف ایسے ٹیکس لگائے جائیں جس کا براہ راست غریب اور متوسط طبقے پر کم سے کم بوجھ آئے اس لیے روزمرہ کی اشیا پر اضافی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا،اس تناظر میں ٹیکس تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے پانچ سالہ دور میں مجموعی قومی پیداوار کے حجم 112ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں صرف 26ارب ڈالر کا جی ڈی کا اضافہ ہو سکا۔

 انہوں نے کہا کہ جب 2013 میں میاں نواز شریف کی وزیر عظمیٰ میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان میں فی کس 1389ڈالر تھی، اس میں مضبوط معاشی پالیسیوں اور ہمارے قائد نواز شریف کے وژن کی بدولت یہ 379 ڈالر کے واضح اضافے کے ساتھ 1768ڈالر تک پہنچ گئی۔آنے والی حکومت اپنے سطحی قسم کے اقدامات کی وجہ سے چار سال کے عرصے میں فی کس آمدن میں صرف 30ڈالر کا اضافہ کر کے اس آمدنی کو 1798 ڈالر تک لے جا سکی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی 2018 میں مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 100ارب ڈالر کے قریب تھی اور پاکستان پر سرمایہ داروں کے اعتماد کو ظاہر کرتی تھی، اس کو پی ٹی آئی کی حکومت نے 26اربن ڈالر پر لا کر کھڑا کیا، یہ سرمایہ داروں کے پی ٹی آئی حکومت پر عدم اعتماد پر ظاہر کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) ملکی قرضوں میں ہمیشہ کم سے کم اضافے کی کوشش کرتی ہے لیکن 2018 میں پی ٹی آئی حکومت آئی تو 1947 سے اس سال تک پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم 24ہزار 953 ارب تھا جو پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں بڑھ کر 44ہزار 383ارب ہو گیا، یہ قرضوں کا حجم جو 2018 میں جی ڈی پی کا 63.7 فیصد تھا، وہ بڑھ کر 2022 میں 73.5 فیصد ہو گیا ، اس کے نتیجے میں ہماری سالانہ قرضوں کی سروسنگ بدقسمتی سے پانچ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ 2013 سے 2018 کے دوران پائیدار بلند شرح نمو کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت دنیا میں 24ویں نمبر پر آ گئی تھی، دنیا کے معتبر ادارے پاکستان کی ترقی کے معترف تھے، جاپان کے معروف ادارے جیٹرو نے براہ راست ڈائریکٹ سرمایہ کاری کے حوالے سے دنیا کو دوسرا پسندیدہ ملک قرار دیا تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی طرح پاکستان اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ایک پر تھی، 18-2017 میں معیشت کی شرح نمو چھ فیصد سے تجاوز کر چکی تھی، افراط زر کی شرح 5فیصد تھی، کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی صرف اوسطاً دو فیصد تھی، ان حالات میں اس ملک میں اچانک ایک غیرسایسی تبدیلی لائی گئی جس نے ایک کامیاب اور بھرپور مینڈیٹ کی حامل حکومت کو اپاہج کر کے رکھ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے الیکشن میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی ، اس سلیکٹڈ حکومت کی معاشی ناکامیوں پر میں اتنا ہی کہنا کافی سمجھوں گا کہ جو ملک دنیا کی 24ویں معیشت بن چکا تھا وہ 2022 میں گر کر دنیا کی 47ویں معیشت گر گیا، یہ چار سالہ کارکردگی کا نچوڑ تھا، یہ وقت کیا گیا جب یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان چند سال بعد جی20 ممالک کی فہرست میں شامل ہو گا، چاہے جو بھی جمہوری تبدیلی آتی لیکن کاش کہ ہم اسی ترقی کی شرح کو آگے لے کر جاتے تو آج ہم دنیا کی جی20 میں شامل ہونے کے قریب ہوتے لیکن بدقسمتی سے 2022 میں ہم دنیا کی 47ویں معیشت بن چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں اس معزز ایوان کے توسط سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس معاشی تنزلی کی وجوہات جاننے کے لیے ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس بات کا تعین کرے کہ ملکی مفاد کے خلاف یہ سازش کیسے اور کس نے کی اور جس کے نتیجے میں آج ہماری پوری قوم بھاری قیمت ادا کررہی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کو ایک بیمار معیشت ملی، پچھلے سال جب حکومت میں تبدیلی آئی تو مالیاتی خسارہ موجودہ دور کی بلند ترین شرح 7.9فیصد پر تھا ، بیرون ادائیگیوں کا خسارہ 17.4ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ 40ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا، معیشت تباہی کے دہانے پر تھی، ہم 2018 تک معیشت کو مضبوط معاشی بنیادوں پر کھڑا کیا تھا لینک ہمارے پیشرو نے اسے برباد کرکے رکھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو آئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے اور معشیت کو سنبھالا دیا جا رہا تھا کہ تاریخی سیلاب کی ناگہانی آفت نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس کی شدت سے اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جس میں سے بیشتر بے گھر ہوئے اور ہمارے 1730 بہن بھائی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس قدرتی آفت سے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی تنظیموں اور وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے لگائے گئے تخمینے کے مطابق پاکستان کو ان سیلابوں سے 8ہزار ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا، پاکستان کی جانب سے اخراج ایک فیصد سے کم ہے اور پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سیلاب کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھوٹ پڑیں، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں خصوصاً کپاس کی قیمتی فصل کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا، قلیل مالی وسائل کے باوجود موجودہ حکومت نے 100ارب روپے فوری ریلیف اور بحالی پر خرچ کیے، 300ارب سے زائد کے وسائل ازسرنو تعمیرات کے لیے موجودہ مالی سال میں وسائل مختص کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت نے 2019 میں آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا تھا، جن لوگوں نے وہ معاہدہ نہیں پڑھا وہ ایک مرتبہ اسے ضرور پڑھیں، یہ معاہدہ آج کے حالات میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، یہ ایک حکومت کا نہیں بلکہ ریاست کا معاہدہ ہوتا ہے اور ستم ظریقی یہ کہ عمران خان حکومت نے اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے سے انحراف کیا، جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو معاہدے کے کلیدی نکات کے برعکس انہوں نے فیصلے کر دیے اور اس کو ماننے سے انکار کردیا، اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کا معاہدہ تعطل کا شکار ہوا اور آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان بھروسے کے حوالے سے ایک وسیع خلیج آ گئی۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ایک حکومت نہیں بلکہ ریاست کا معاہدہ ہوتا ہے اور اسی کی روح پر عمل کرتے ہوئے ہماری حکومت نے عمران خان حکومت کی جانب سے کیے گئے معاہدے کو من و عن تسلیم کیا، ناصرف اس معاہدے کو بحال کروایا بلکہ اس بات سے قطع نظر اس معاہدے پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا کہ اس سے ان کو کتنا سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا، آج تمام سیاسی جماعتوں کو اس وجہ سے عوامی سطح پر بے پناہ نقصان ہوا لیکن میں ہمیں اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیے کہ ریاست کو سیاست پر فوقیت ہونی چاہیے ، اگر ریاست ہے تو سیاست ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی پس منظر میں آئی ایم ایف کا نواں مشن پاکستان آیا اور اس سے ہماری معاشی ٹیم کے 31 جنوری سے 9 فروری تک 10 دن مذاکرات ہوئے، اس کے نتیجے میں ایک مفاہمت ہوئی اور ہم نے مختلف معاملات پر مزید عملدرآمد کرنے کا عندیا دیا، ان معاملات میں سب سے اہم نکتہ اضافی 170ارب روپے کے محصولات کی وصولی کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس مالی سال کے اہداف پورے کرے گا، ان اضالی محصولات کا حکومت کی مالی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہے ، پاکستان میں بجلی کے گردشی قرضوں کا ایک دیرینہ بحران کئی سالوں سے چل رہا ہے لیکن اس کا حجم بڑھتا جا رہا ہے، بجلی کی چوری، لائن لاسز، بلوں کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں تین ہزار ارب روپے کے لگ بھگ بجلی کے بلوں کے عوض صرف 1600ارب وصول کیا جاتا ہے اور باقی 1400ارب سالانہ نقصان ہے، یہ کسی بھی معیشت کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اس قسم کے نقصان کی کوئی بھی ریاست متحمل نہیں ہو سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2013 سے 2018 کے دوران ہماری پچھلی حکومت نے اس سنگین معاملے کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی اور اس کے نتیجے میں گردشی قرضوں کے بڑھنے کی رفتار میں خاطر خواہ کمی آئی، شومئی قسمت کہ پچھلی حکومت نے اس مسئلے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی اور ان کی نااہلی کے سبب چار سالہ حکومت کے دوران گردشی قرضہ 2018 میں 1148 ارب سے بڑھ کر 2467ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں اصلاحات ہمارے اپنے معاشی مستقبل کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اس دگرگوں صورتحال سے نمٹنے کے لیے لازم ہے کہ ہم چند مشکل فیصلے کریں جو آج ہمیں گراں معلوم ہوتے ہیں لیکن بجلی کے شعبے کی اصلاح اور معاشی استحکام کے لیے انتہائی ناگزیر ہیں، اس تناظر میں عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اس شعبے کی اصلاحات کو یقینی بنانے پر بہت زور دیا ہے، حکومت نے جن اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے اس کے نتیجے میں اس سال شامل ہونے والے 855ارب روپے کے گردشی قرضوں کو کم کر کے 336ارب روپے کیا گیا ، یہ ہمارا نیا ہدف ہے کیونکہ 570ارب روپے اس معزز ایوان نے بجٹ میں منظور کیے ہوئے ہیں، یہ اس کے علاوہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ باقی ماندہ فرق کو پورا کرنے کے لیے بجٹ سے رقم مختص کی جائے گی جس کی وجہ سے بجٹ میں آنے والے مزید خسارے کے کچھ حصے کو نئے محصولات سے حاصل کیا جائے گا لہٰذا اس فنانس بل کے ذریعے کابینہ نے 170ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی منظوری دی ہے

واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت کی جانب سے آرڈیننس جاری کرنے سے ’انکار‘ کے فوری بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ٹیکس ترمیمی بل، فنانس بل 2023 کی منظوری دی گئی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں