پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل کثرت رائے سے منظور،اپوزیشن کاہنگامہ

اسلام آباد(نیوزٹویو) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل2023 کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ بل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑنے ایوان میں پیش کیا بل کی منظوری کے موقع پرتحریک انصاف اوراپوزیشن کی دیگرجماعتوں نے شدید احتجاج اورشورشرابا کیا اوربل کی کاپیاں پھاڑ کر اسپیکر کی طرف اچھال دیں وفاقی وزیر قانون کی تقریر کے دوران تحریک انصاف کے سینیٹرز نے عدلیہ پر حملہ نامنظور، الیکشن کراؤ ملک بچاؤ اور امپورٹڈ حکومت نا منظور کے نعرے لگائے، سپیکر انہیں خاموش کرواتے رہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سوموارکو اسپیکر راجہ پرویز الہٰی کی زیر صدارت ہوا جہاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل پیش کیا جو کہ متفقہ رائے سے منظور کرلیا گیا گیا۔

وزیر قانو اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ایوانوں نے اس بل پر بحث کیا تھا، سیڑھیوں پر بیٹھے احتجاج کرنے والے دوستوں کو چاہیے کہ کم علمی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اس بل کو غور سے پڑھیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صدر مملکت عارف علوی نے اپنی چٹھی میں جو جو سوالات اٹھائے ہیں اس میں سب سے پہلے میرا اعتراض ہے کہ صدر مملکت نے جو لفظ ’ قانون سازی کی رنگین مشق’ استعمال کیا ہے وہ نامناسب ہے اور صدر مملکت نے پارلیمان کے خودمختار حیثیت، آزادی، قانون بنانے کے اختیارات پر منفی تبصرہ کیا ہے۔صدر مملکت کو ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کرنا چاہیے نا کہ سیاسی جماعت کے رکن کے طور پر کیونکہ پارلیمان کا رکن ہونے کی حیثیت سے یہ بات میرے لیے تکلیف دہ ہے کہ صدر مملکت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے تعصب کی عینک پہن لیتے ہیں اور اپنی جماعت کی سروس شروع کردیتے ہیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشن، سول سوسائٹی کے جائز مطالبات کو نظر میں رکھتے ہوئے اور ماضی قریب میں سپریم کورٹ کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کے پیش نظر پاکستان کے عوام کے نمائندہ ایوان نے سپریم کورٹ پروسیجر اور رولز میں شفافیت لانے اور امپیریل کورٹ کا تاثر ختم کرنے کے لیے، ون مین شو کا اثر ختم کرنے کے لیے یہ قانون بنایا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی جارہی ہے لیکن یہ تمام اختیارات سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو ہی دیے گئے ہیں اور جو کام اکیلے چیف جسٹس کرتے تھے اب وہ کام دو سینیئر ترین ججوں کی مشاورت سے کریں گے جس سے ادارے میں اجتماعی سوچ کا کلچر پیدا ہوگا اور اسی طرح ادارہ تنقید سے محفوظ رہے گا۔ دونوں ایوانوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد یہ قانون پاس کیا جس کو بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشن نے پڑے پیمانے پر سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بل بہت پہلے آنا چاہیے تھا۔

وزیر قانون نے سینیٹر مشتاق احمد کی طرف سے پیش کی گئی ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ پھر بھی سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے کسی اور کو نہیں مگر کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جن کے ہاتھوں یہ چیزیں خراب ہوئی ہیں ان کے ہاتھوں درست ہوں تو اچھا ہے۔ بعدازاں پارلیمان نے سینیٹر مشتاق احمد کی ترمیم کو مسترد کردیا۔

قبل ازیں سینیٹر مشتاق احمد نے بل میں ترامیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان میں عدلیہ کی مداخلت روکنے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو بھی روکنا ہوگا۔اس بل کے مقاصد یہ ہیں کہ پارلیمان کے دائرے اختیار میں عدلیہ کی مداخلت کو روکا جائے، میں پارلیمان کے ساتھ کھڑا ہوں، نہ صرف عدلیہ بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو بھی روکا جائے اور پارلیمان کو سپریم اور خودمختار ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ بھی پارلیمان کے دائرے اختیار میں مداخلت کر رہی ہے لیکن گزشتہ 75 برس سے اسٹیبلشمنٹ بھی اس میں مداخلت کرتی رہی ہے۔

سینیٹرمشتاق نے کہا کہ ایک مخصوص شخص کے لیے پارلیمان میں قانون سازی کی جاتی ہے پہلے بھی آرمی چیف کو توسیع دینے کے لیے قانون سازی کی گئی، اسٹیٹ بینک کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے لیے ترامیم کی گئیں جو کہ غلط تھا اس لیے موجودہ بل کی شق ٹو سب کلاس ٹو میں ترمیم کرنے کی تجویز کرتا ہوں۔

اس موقع پر فارق ایچ نائک نے کہا کہ پارلیمان نے اس بل کو منظور کیا اور بعد میں سینیٹ میں بھی منظور کرلیا گیا مگر صدر مملکت نے اس کو واپس بھجوا دیا جس پر یہ مشترکہ اجلاس بلایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کو ازخود نوٹس کے اختیارات دیے گئے جس کے تحت انسانی حقوق اور دیگر معاملات پر ازخود نوٹس لیتے تھے مگر اس میں بار ایسوسی ایشن اور بار کونسلز سمیت سپریم کورٹ کے ججز کی طرف سے بھی اظہار تشویش کیا جا رہا تھا کیونکہ متاثرہ پارٹی کو اپیل کا حق نہیں تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں