کوئی سیاسی نہیں بلکہ آرمی کے سروسز چیفس کی جانب سے وضاحتی بیان دیا تھا،ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی(نیوزٹویو) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر کے بیان پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ میں نے کسی قسم کا سیاسی بیان نہیں دیا میں نےگزشتہ روزپا ک فوج کے ترجمان کی حیثیت سے بیان دیا تھا یہ رائے نہیں انٹیلی جنس بیس انفارمیشن تھی سازش کا لفظ اعلامیہ میں شامل نہیں تھا، جوڈیشل کمیشن بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔نجی ٹی وی سے گفتگومیں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہا کہ میں نے انٹرویو کے دوران کسی قسم کا کوئی سیاسی بیان نہیں دیا۔ صرف پاکستان آرمی کے سروسز چیفس کی جانب سے وضاحتی بیان دیا تھا، گزشتہ ہفتے شیخ رشید نے بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کسی بھی سروس چیف نے نہیں کہا سازش نہیں ہوئی۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ نے گفتگو کے دوران اس انداز میں گفتگو کی جیسے کہ وہ ان کے نمائندے کے طور پر بات کر رہے ہیں، اس لیے ضروری سمجھا اسی پروگرام میں جاکر بات کی وضاحت کی جائے کیونکہ سروسز چیفس کے حوالے سے ترجمان میں ہی ہوں اور اگر ان کے بارے میں کوئی اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو میری ذمےدار بنتی ہے وضاحت کروں۔

 میجر جنرل بابر افتخار نےکہا کہ اس لیے میرے بیان میں کوئی سیاسی بات نہیں ہے اور جس چیز کی میں نے وضاحت کی وہ بھی یہ ہی تھی بہت وضاحت کے ساتھ اس میٹنگ میں سروسز چیفس اور ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے بالکل واضح کردیا گیا تھا کسی قسم کا سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اس پر میں نے کل کافی وضاحت سے بات کی، میری جانب سے وضاحتی بیان تھا، اس میں کوئی سیاسی بات نہیں تھی۔ سازش کا معاملہ ایک قومی سلامتی کا تھا، اسی لیے تمام سروسز چیفس اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی وہاں اجلاس میں بلایا گیا تھا اور جب اس طرح کے اعلیٰ ترین فورم پر جو ملک کی سلامتی کا سب سے اہم فورم ہے، جب وہاں بلایا جاتا ہے تو اس کا ایجنڈا پہلے سے بتادیا جاتا ہے کہ اجلاس کیوں ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اجلاس میں شرکت کے لیے تمام شرکا، خاص طور پر تینوں سروسز چیفس اور ڈی جی آئی ایس آئی اپنی ان پٹ لے کر جاتے ہیں اور وہ ان پٹ جو ہوتی ہے وہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ہوتی ہے، وہ رائے نہیں ہوتی، آج کہا کہ یہ ان کی رائے ہے، وہ ہماری رائے ہے۔ میں سروسز چیفس کی جانب سے آپ کو یہ بتا سکتا ہوں یہ رائے نہیں تھی، یہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر انفارمیشن تھی، فیکٹس کو دیکھ کر ان کے مطابق وہاں یہ اِن پٹ دی گئی تھی، اس لیے اجلاس میں موجود سیاسی قیادت نے بھی اس کے بعد میٹنگ کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں کیا۔ یہ اِن پٹ دی گئی تھی تو اس کو رائے نہیں کہا جاسکتا، یہ ایک طریقہ کار کےتحت بریف کیا گیا تھا، ان پٹ لے کر گئے تھے اور اس کی بنیاد پر یہ بات کی گئی تھی۔ موجودہ حکومت عدالتی کمیشن یا کوئی بھی کمیشن اس معاملے کو اس کے منطقی انجام تک لے جانے کےلیے بنانا چاہیے تو وہ بنا سکتی ہے، سابقہ حکومت کے پاس بھی یہ اختیار موجود تھا جب کہ اس حکومت کے پاس بھی اختیار موجود ہے اور اگر حکومت اس معاملے پر کوئی کمیشن یا فورم بناتی ہے تو ادارہ اس سلسلے میں تمام مطلوبہ سہولت اور تعاون فراہم کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں