ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثہ،گریڈ18کے2افسران سمیت6ملازمین معطل

اسلام آباد(نیوزٹویو) پاکستان ریلوے کے اعلیٰ حکام نے ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثے میں غفلت کے ذمہ دارگریڈ اٹھارہ18کے دوافسران سمیت 6 ملازمین کو معطل کردیا ہے جبکہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ میں تخریب کاری کے امکان کومسترد نہیں کیا گیا وزارت ریلوے کی طرف سے جارہ کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق پاکستان ریلوے کے معطل ہونے ولے چھ افسران و ملازمین میں گریڈ 18 کے 2 اور گریڈ 17 کا ایک افسر بھی شامل ہیں۔ معطل ہونے والوں میں سکھر کے ڈویژنل ایگزیکٹو انجینئر حافظ بدرالعرفین، نوابشاہ کےاسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر مشرف مجید اور کوٹری کے پاور کنٹرولر بشیر احمد، کراچی ڈیزل ورکشاپ کے عاطف اشفاق، شہداد پور کے پرمیننٹ وے انسپکٹر محمد عارف اور گینگ مین کنگلے غلام محمد شامل ہیں۔

 بدھ کوقومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ریلوے اور ہوابازی خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہزارہ ایکسپریس حادثے میں ہلاکتیں ڈی ریل سے نہیں بلکہ ریل الٹنے کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں کیونکہ بوگیاں پل کی وجہ سے الٹ گئیں اس حوالے سے گریڈ 18 سمیت 6 افسران کو معطل کیا گیا ہے، سندھ حکومت نے بہت تعاون کیا ہے، پاکستان رینجرز، آرمی نے بھی بہت کام کیا ہے اور سب سے زیادہ کردار سرہاری کے شہریوں نے ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو 15 لاکھ فی شخص کا معاوضہ ادا کریں گے، لیکن پھر بھی کہوں گا کہ لکڑی کا کوئی پیچ نہیں لگا تھا، اگر ریلوے کو چلانا ہے تو اس پر سرمایہ کاری کریں، اگر روڈ اور ریلوے سیکٹر کو دیکھا جائے تو کوئی مماثلت نہیں ہے۔ دنیا میں جہاں ریلوے کامیاب ہوتی ہے وہاں اس پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے، یہ حادثہ سیلاب زدہ علاقے میں پیش آیا ہے، ہم نے ٹریک کو ٹھیک تو کردیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس ہمیں دینے کے لیے ایک آنا نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ابھی 12 ارب مل جائیں تو کام ہو سکتا ہے کیونکہ کوٹری اور روہڑی کے درمیان کا علاقہ ہمارے لیے سردرد بن گیا ہے، اب یہ آنے والی حکومت پر ہے کہ اس کو یہ رقم دینی چاہیے جس سے ٹریک کو مزید محفوظ کیا جا سکتا ہے، مزید کہا کہ ہم نے تخریب کاری کے خیال کو مسترد کردیا ہے، اصل وجہ سامنے پیش کردی ہے۔

نواب شاہ کے قریب ٹرین حادثے کی محکمانہ تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ہزارہ ایکسپریس کے پٹری سے اترنے کی وجہ خراب ٹریک اور غیر موجود فش پلیٹس تھیں جس کے نتیجے میں لگ بھگ 30 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

پاکستان ریلوے کی 6 رکنی انکوائری ٹیم کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام پہلوؤں سے جانچ پڑتال کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ حادثہ حال ہی میں ریل ٹریک ٹوٹنے اور فش پلیٹس غائب ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔ تحقیقاتی ٹیم نے ٹرین کے پٹری سے اترنے کی ایک اور وجہ ٹرین کے انجن کے پھسلنے کو بھی قرار دیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹرین کا انجن سینئر حکام کی جانب سے بغیر جانچ روانہ کر دیا گیا تھا، مزید یہ کہ جائے حادثہ سے آگے لوہے کے فش پلیٹس اور لکڑی کے ٹرمینل جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے پائے گئے، لہٰذا اس حادثے کی ذمہ داری انجینئرنگ برانچ اور مکینیکل برانچ پر عائد ہوتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تخریب کاری کے خدشے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پٹری سے اترنے والی بوگیاں 750 فٹ کے فاصلے تک گھسیٹتی چلی گئیں، تاہم ٹیم میں شامل 2 ارکان نے رپورٹ میں اپنا اختلافی نوٹ درج کیا۔

ٹیم میں شامل ایک رکن نے کہا کہ وہ اس رپورٹ سے متفق نہیں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ٹرین کے پٹری سے اترنے کی وجہ یہ تھی کہ ٹریک کو آپس میں جوڑنے والے 2 فش پلیٹس غائب تھیں اور گیج پھیلنے کی وجہ سے انجن پٹری سے اتر گیا تھا، نتیجتاً وہیل ڈسک کے باہر کھرچنےکے نشانات بھی نظر آئے، اس کے علاوہ ٹریک، فش پلیٹس اور بولٹ پر حرارت کے نشانات نہیں دیکھے گئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں